اور:
’’اس ادارے نے جتنی جلدی اور حیرت انگیز ترقی کی ہے، اس منزل میں دوسرے اداروں کو پہنچنے میں ایک عرصہ لگا ہے‘‘۔
۴؍شوال ۱۴۱۲ھ
مفکر اسلام حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندویؒ نے تحریر فرمایا:
’’آج بستی حاضری کے موقع پر دارالعلوم الاسلامیہ کو جس ترقی، وسعت، نظم وانتظام کی بلند سطح پر دیگھا، اور اس کی ترقی وتوسیع کے جو مظاہر اور نمونے دیکھے، اُن کا تصور ہی نہ تھا، دیکھ کر بے اختیار زبان سے نکلا کہ یہ تو ایک جامعہ (یونیورسٹی) معلوم ہوتا ہے، دارالعلوم اپنے ذمہ داروں کی بیدار مغزی، معاونین کے اخلاص اور اہل دین واہل اثر کے تعاون کی بنا پر ایک اور بلند مستقبل کی خبر دیتا ہے، اور اندازہ ہوتا ہے کہ وہ جلد ہندوستان کے ممتاز مدارس اور مقاماتِ تعلیم وتربیت میں ممتاز مقام حاصل کرلے گا‘‘۔
۳؍رجب ۱۴۱۴ھ
حضرت مولانا قاضی مجاہد الاسلام صاحب قاسمیؒ نے اپنے تأثرات یوں رقم فرماتے ہیں :
’’دارالعلوم الاسلامیہ بستی (اترپردیش) مدت سے یہاں حاضری کی تمنا تھی؛ لیکن یہ سعادت مؤرخہ ۱۲؍جون ۱۹۹۳ء کو حاصل ہوسکی، اور مسلسل تین دن قیام کا موقع ملا، ان تین ایام میں مدرسہ کے اساتذہ، طلبہ، کتب خانہ کو دیکھنے کا موقع ملا، رفیق محترم حضرت مولانا محمد باقر حسین صاحب دامت برکاتہم مہتمم دارالعلوم خوش قسمت ہیں ، جن کو اللہ تعالیٰ نے اس عظیم کام کی توفیق عطا فرمائی، صرف چند برسوں میں اس ادارے کو تاسیس سے ترقی کے ان مرحلوں تک پہنچنے میں موصوف کا کتنا خونِ جگر خرچ ہوا ہوگا، اس کا اندازہ انہیں لوگوں کو ہوسکتا ہے جو اس طرح ٹھوس تعمیری کاموں میں مشغول رہے ہیں ، مدسہ میں داخل ہوکر پہلی نظر میں طلبہ کی تعداد اور پھر عظیم الشان عمارت کو دیکھ کر تو ہر کس وناکس متأثر ہوتا ہے؛ لیکن آج کے اس دور انحطاط میں اور علمی استعداد کے فقدان کے اس زمانے میں مدرسہ کے طلبہ کی ٹھوس علمی استعداد کو دیکھ کر جو دلی مسرت مجھے حاصل ہوئی اور طلبہ کی دینی ماحول میں تربیت کو دیکھ