مشورہ جناب مولانا محمد باقر حسین صاحب مدظلہ العالی سے ہوتا رہا، ہمارے اس پوربی علاقہ میں انہیں کی ایسی ذات ہے جن کے عزم وارادہ کے سامنے کوئی مشکل، مشکل نہیں رہتی، اللہ پاک نے اُن کے دل کے اندر اس کا جذبہ پیدا فرمادیا، اور بحمدہ تعالیٰ چند ہی سال میں ایسا عظیم الشان ادارہ قائم ہوگیا جس میں درسِ نظامی کا مکمل نظم اور تربیت کا معقول انتظام ہے‘‘۔
شروع میں مستقل عمارت نہ ہونے کی وجہ سے کرائے کا مکان لے کر ابتدائی تعلیم کا بندوبست کیا گیا، پھر اس کے بعد شہر میں دارالعلوم کے لئے وسیع اراضی کی خریداری کی گئی، حضرت والد صاحبؒ نے پہلے شہر کے کنارے جانب جنوب پانچ ایکڑ زمین خریدی تھی جس میں عارضی طور پر ٹین شیڈ ڈال کر عربی، فارسی اور حفظ کی تعلیم کا آغاز ہوا؛ لیکن پھر شہر کے طلبہ کے لئے آمد ورفت کی دشواری کے سبب اور شہر کی مسلم آبادی کی سہولت کے پیش نظر وسط شہر کے محلہ دریاخاں میں تین ایکڑ زمین خریدی، جس میں تعمیری منصوبے شروع ہوئے اور عربی، فارسی وحفظ کے درجات منتقل کئے گئے، فرقہ پرست غیر مسلموں کی طرف سے دارالعلوم پر بالکل ابتدائی دور ہی میں بے حد آزمائشی اور دشوار حالات آئے، طرح طرح کی رکاوٹیں کھڑی کی گئیں ؛ لیکن حضرت والد صاحبؒ کی مجاہدانہ عزیمت :
ع: راہ میں حائل ہوں اگر کوہ تو ٹھکراکے نکل
کے مصداق ہر طرح کے حالات کا مردانہ وار مقابلہ کرتی رہی، بالآخر اُن کے خلوص ومجاہدے اور اکابر کی مسلسل دعاؤں کی برکت کا یہ اثر ہوا کہ تمام مسائل حل ہوگئے، اور دارالعلوم الاسلامیہ ٹھوس، مستحکم، معیاری اور مثالی تعلیم وتربیت کا مرکز بن کر ابھرا، یہ حضرت والد صاحبؒ کا لگایا ہوا وہ شجر طوبیٰ تھا جس کے برگ وبار پورے خطے کو سیراب کرنے لگے، ملک کے تمام دینی مراکز میں اس کا لوہا مانا جانے لگا۔ حضرت باندویؒ کا یہ تأثر حقیقت واقعہ کا سچا عکاس ہے کہ:
’’انتہائی خوشی کی بات ہے کہ دارالعلوم الاسلامیہ نے بہت تھوڑی سی مدت میں حیرت انگیز ترقی کی ہے‘‘۔
۲۲؍رمضان ۱۴۰۴ھ