دعوتی، سماجی اور انتظامی صلاحیتوں کی باضابطہ طور پر اولین جولان گاہ تھی، حضرت کی خدمات کے نقوش جامعہ امدادیہ کے ہر گوشے اور ہر حصے میں اس طرح ثبت ہیں کہ ان کو کبھی نہ محو کیا جاسکتا ہے اور نہ نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔
غالباً ۱۹۶۷ء میں کچھ آزمائشی حالات سے بددل ہوکر امیر شریعت حضرت مولانا منت اللہ رحمانیؒ کی دعوت پر جامعہ رحمانیہ خانقاہ رحمانی مونگیر (بہار) چلے گئے، تقریباً ایک سال وہاں درجاتِ عالیہ کو درس دیا، بطور خاص تفسیر بیضاوی کا سبق آپ سے متعلق رہا؛ لیکن جامعہ امدادیہ کے اربابِ حل وعقد اور عمائدین شہر کے بے حد اصرار پر پھر مرادآباد واپسی ہوئی۔
حضرت کی صلاحیتوں ، جوہر قابل، حوصلہ، لگن اور مجاہدے کو دیکھ کر جامعہ امدادیہ کی مؤقر مجلس شوریٰ نے ۱۹۶۹ء میں آپ کو وہاں کا انتظام وانصرام سپرد کیا، بزرگوں کے صحبت یافتہ شہر مرادآباد کے مشہور دین دار تاجر ظروف الحاج عبدالواجد صاحب شمسی مرحوم ادارے کے ذمہ دار تھے، حضرت والد صاحب کو مہتمم متعین کیا گیا، حضرت والد صاحب نے تعلیمی استحکام، مالی استحکام، انتہائی لائق ٹیم تیار کرنے اور جامعہ کو ملک گیر شہرت کا حامل ادارہ بنانے کی تمام سمتوں میں اپنے خاص ذوق وشوق، لگن، ہمت، حوصلہ، ولولہ اور فکر مندی (جو ان کا خاص امتیاز ہے اور جس کی مثال اب طبقۂ علماء میں خال خال ہی دستیاب ہے) کے ساتھ محنت شروع کی، اور اپنی لگن اور استقامت سے جامعہ امدادیہ کو ایک اعتبار اور وقار عطا کردیا، فعال اساتذہ وکارکنان کی مضبوط ٹیم سرگرم عمل ہوگئی، تعلیم وتربیت کا مثالی نظام قائم ہوا، ملک کے اکابر علماء کا جامعہ امدادیہ سے تعلق مستحکم ہوا، اکابر کی آمد بکثرت ہونے لگی، یہ وہ دور تھا جب جامعہ کے سرپرست حکیم الاسلام حضرت مولانا قاری محمد طیب صاحبؒ مہتمم دارالعلوم دیوبند تھے، اسی دوران ایک وقت ایسا بھی آیا کہ حضرت والد صاحبؒ کا تقرر بحیثیت مدرس کتب متوسطہ درجاتِ عربی دارالعلوم دیوبند میں ہوگیا، حضرت والد صاحبؒ کی باتوں سے