التی تتشوہ فیھا الصورۃ‘‘ سے یک مشت کی قید سے صرف نظر کرتے ہوئے مطلق طورپر ریش تراش لینے کی جرأت کر بیٹھیں جو ظاہر ہے کہ آپ کے مقصد کے خلاف ہوگا اور شریعت کے منشا کے بھی۔
میرے خیال میں ایسی معلومات افزا اور محنت وژرف نگاہی سے مرتب کی گئی تحریر کے لیے کسی کے مقدمہ کی ضرورت بھی نہیں کہ’’ مشک آں باشد کی خود ببویدنہ کہ عطار بگوید‘‘ میں یہ سمجھتا ہوں کہ یہ رسالہ سے بالاتر ہے کہ اس پر تعارفی تحریر لکھی جائے۔ اس رسالہ کے دیکھنے سے آپ کے بارے میں حسنِ ظن میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا اور امیدیں قائم ہوگئیں کہ اللہ تعالیٰ آپ سے اور بہت سے اہم علمی کام لے گا۔ اللہم زد فزد۔
مولانا سنبھلی ایک دوسرے خط میں تحریر فرماتے ہیں :
واقعہ یہ ہے کہ داڑھی کے موضوع پر یوں تو بہت کچھ لکھا گیا ہے اور بڑے بڑے علماء نے بھی لکھا ہے مگر جس درجہ آپ کے رسالے میں احتواء کیا گیا ہے میری نظر میں اور کسی نے نہیں کیا۔ ’’فجزاکم اللہ خیر الجزاء‘‘خداکرے زور قلم اور زیادہ ہو کہ آپ اس طرح کی بلکہ اس سے بڑھ کر برابر علمی خدمات انجام دیتے رہیں ۔ میری نظر سے تو پہلی بار آپ کے قلم گہر بار کے نقوش گزرے، بے ساختہ داد ومبارک باد ینے کا تقاضا پیدا ہوا، چنانچہ اسی تقاضے کی تکمیل ان سطور کے ذریعہ کررہا ہوں ۔
محمد برہان الدین
٭٭