کتب حدیث میں مذکور نہیں ہے، ابن عمرؓ وغیرہ کے تعامل ودیگر صحابہؓ کے سکوت فرمانے سے حدیث مرفوع کا یہ مفہوم متعین کیا جاسکتا ہے کہ داڑھی کی حد کم از کم ایک مشت ہے اور یہ کہ اس سے زائد کٹوانے میں کوئی مضایقہ نہیں ۔
اسی لیے ابن حجرؒ وغیرہ حدیث مرفوع اور فعل ابن عمرؓ میں تضاد کے قائل نہیں ہیں ، جیسا کہ پہلے گزرچکا ہے۔
مولانا قاری محمدطیب صاحبؒ ابن عمرؓ کے اثر پر روشنی ڈالتے ہوئے رقم طراز ہیں :
’’ ظاہر ہے کہ اول تو ابن عمرؓ جیسے فانی فی الاتباع اور گرویدۂ اتباع سنت سے یہ بعید ہے کہ وہ اس مقدار کے بارے میں اتباع سنت سے کام نہ لیتے ہوں ، پھر جب کہ داڑھی رکھنے کی حدیث(أحفوا الشوارب وأعفوا اللحی) مونچھیں پست کرو اور داڑھیاں بڑھائو، کے راوی بھی خود عبد اللہ بن عمرؓ ہی ہیں تو اس سے صرف یہی واضح نہیں ہوتا کہ ان کے نزدیک داڑھی تراشنے کی حد مقدار قبضہ تھی اور داڑھی کی اس مقدار کا ان کے نزدیک باقی رکھنا ضروری تھا۔ بلکہ غور کیا جائے تو ان کا یہ فعل حدیث مرفوع کا بیان بھی ہوسکتا ہے، کیونکہ جب کوئی راوی پیغمبر کے کسی فعل کو علی الاطلاق روایت کرے، جس میں کوئی قید مذکور نہ ہو اور پھر اس کے اتباع میں جب خود عمل کرنے پر آئے تو حدودوقیود کی رعایت رکھ کر عمل کرے تو یہ اس کی دلیل ہوسکتی ہے کہ اس کے نزدیک پیغمبرؐ کے فعل میں بھی یہ قید ملحوظ تھی۔ ورنہ کوئی وجہ نہیں کہ پیغمبر ؐ کے کسی فعل پر جو بلا قید شروط ثابت ہو کوئی صحابی اور وہ بھی ابن عمرؓ جیسا فانی فی الاتباع صحابی اپنی طرف سے کسی قید کا اضافہ کردے۔ پس عبداللہ بن عمرؓ کے اس فعل سے کہ وہ مقدار قبضہ سے زائد داڑھی کٹوادیتے تھے،مقدار قبضہ کا ان کی سنت ہونا تو صراحتاً ثابت ہوتا ہے، خود حضورﷺ کی سنت ہونا بھی دلالتاً ثابت ہوجاتا ہے، ورنہ ازخود محض اختراعی طورپر فعل نبوی میں کسی قید کا اضافہ ابن عمرؓ کی جرأت نہیں ہوسکتا تھا، اس سے صاف طورپر نمایاں ہوجاتا ہے کہ عبد اللہ بن عمرؓ جیسے داڑھی رکھنے اور بڑھانے میں