نہیں ہے، صحابہ نعوذباللہ دین میں اختراع کرنے والے یا سنت رسول کے خلاف چلنے والے نہیں تھے، ان کا قول وعمل سنت رسول ہی سے ماخوذ ہوتا تھا، بالفاظ دیگر صحابہ کے اقوال وافعال سنت رسول کی تشریح کامقام رکھتے ہیں جس طرح سنت قرآن کی تفسیر کی حیثیت رکھتی ہے۔
شاہ ولی اللہ محدث دہلویؒ جنہوں نے برصغیر ہندوستان میں علم حدیث کی شجرکاری کی اور جنہیں نواب صدیق حسن خاں نے الشیخ الأجل والمحدث الاکمل ۱؎ جیسے خطابات سے نوازا ہے، المصفی کے مقدمہ میں جو المسویٰ کے ساتھ عربی میں ترجمہ کرکے شائع کیا گیا ہے لکھتے ہیں :
ولا یوجد فیہ موقوف صحابی أو أثر تابعی الا لہ مأخذ من الکتاب والسنۃ۔۲؎
مؤطا میں کسی صحابی کی جو موقوف روایت یا کسی تابعی کا اثر ہے، وہ کتاب وسنت ہی سے ماخوذ ہے۔
امام مالکؒ ابن عمر ؓ کا اثر اسی لیے نقل کرتے ہیں کہ وہ رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد ۶۰؍ سال تک زندہ ہے، وہ رسول اللہﷺ اور صحابہؓ کے امور سے زیادہ واقف تھے، امام مالک ؒ کہتے ہیں کہ ابن شہاب کہتے ہیں کہ تم ابن عمرؓ کی رائے سے ہرگز نہ ہٹنا، کیونکہ وہ رسول اللہﷺ کے بعد ۶۰ ؍ سال تک زندہ رہے۔ اس لیے ان سے رسول اللہ ﷺ او رصحابہ کا کوئی امر مخفی نہیں رہا۔۳؎
لہٰذا کہا جاسکتا ہے کہ ابن عمر ؓ نے جو عمل کیا ہے وہ بالکل منشاء رسول کے مطابق ہے، انہوں نے سنت رسول کی مخالفت ہرگز نہیں کی ہے، اگر صحابہ ؓ ان کے فعل کو خلاف سنت تصور کرتے تو ضرور ان کو تنبیہ کرتے لیکن اس قسم کی کوئی بات
------------------------------
۱؎ دیکھئے الحطۃ فی ذکر الصحاح الستہ ص ۱۴۶۔
۲؎ مقدمہ المصطفیٰ مع المسوی ص ۲۴
۳ ؎ مقدمہ المصفی مع المسوی ص ۳۲