منع ہے، وہ عجمیوں کا طریقہ ہے، یا اس اندازسے کاٹ دینا جیسے کبوتر کی دم ہوجائے، اعفاء سے مراد داڑھی کو وافر مقدار میں رکھنا ہے، جیسا کہ دوسری روایت میں ہے اور اِدھر اُدھر سے کچھ تراشنا یہ لفظ قص میں داخل نہیں ہے۔
ملا علی قاری مذکورہ بالا عبارت نقل کرنے کے بعد تحریر فرماتے ہیں :
’’ وعلیہ سائر شراح المصابیح من زین العرب وغیرہ‘‘ یعنی زیر بحث حدیث کے مذکورہ بالا مفہوم میں مصابیح السنۃ للبغوی(جو مشکوٰۃ المصابیح کی اصل ہے) کے تمام شارحین زین العرب وغیرہ متفق ہیں ، یعنی ان کے نزدیک طول وعرض سے کچھ کاٹ لینا نہ تو قص لحیہ میں شمار ہوگا۔ نہ ہی اعفاء لحیہ کے منافی ۔
شیخ عبد الحق محدث دہلویؒ کی تحقیق بھی یہی ہے، ملاحظہ ہو اشعۃ اللمعات ۳/۵۷۴
عبد الرؤف مناوی شافعی (متوفی ۱۰۳۱ھ) جامع صغیر کی شرح میں تحقیق کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
محل الاعفاء فی غیر ما طال من أطرافھا حتی تشعث وخرج عن السمت، أما ھو فلا یکرہ قصہ۔۱؎
محل اعفاء اطراف کے بڑھے ہوئے بالوں کے علاوہ ہے، جن کی وجہ سے انسان پراگندہ صورت بن جائے اور وقار کی حد سے باہر ہوجائے سو ان کا کاٹنا مکروہ نہیں ہے۔
سید سابق اپنی شہرۂ آفاق کتاب’’ فقہ السنہ‘‘ میں سنن فطرت پر روشنی ڈالتے ہوئے اعفاء لحیہ کے بارے میں رقم طراز ہیں :
اعفاء اللحیۃ وترکھا حتی تکثر بحیث تکون مظہراً من مظاہر الوقار فلا تقصر تقصیراً یکون قریباً من الحلق ولا تترک حتی تفحش بل یحسن
------------------------------
۱؎ فیض القدیر للمناوی ۱؍۱۹۸، دارالمعرفہ ، بیروت