ہیں لیکن تمام شوافع نے حج وعمرہ سے مشروط نہیں کیا ہے۔
مایۂ ناز شافعی محدث حافظ ابو عبد اللہ حسین بن حسن حلیمیؒ (متوفی۴۰۳ھ) جو اپنے وقت کے امام اور مذہب شافعی کے چنیدہ افراد میں سے تھے، جن کو مورخین نے’’ رئیس أصحاب الحدیث ببخاریٰ ونواحیھا‘‘ لکھا ہے۔ جن کی کتاب ’’ المنھاج فی شعب الایمان‘‘ اپنے موضوع پر بے مثال کتاب تصور کی جاتی ہے، امام بیہقی نے اسی کتاب کی تلخیص کرکے’’شعب الایمان‘‘ مرتب کی ہے، بیہقی اور ابن حجر وغیرہ جن کے اقوال بطور شواہد نقل کرتے ہیں ، یہی حلیمی داڑھی کے مسئلے میں جمہور کے ساتھ ہیں ، اس لیے حدیث’’ أحفوا الشوارب وأعفوا اللحی‘‘ ذکر کرنے کے بعد ابن عمرؒ، ابوہریرہؒ اور ابراہیم نخعیؒ کا عمل اور حسن بصریؒ اور طائوسؒ کا قول نقل کیا۔۱؎
امام غزالیؒ(متوفی ۵۰۵ھ) جو’’ شافعی ثانی‘‘ کہے جاتے ہیں کہ بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مطلق ارسال کے قائل ہیں ، یہ دعویٰ صحیح نہیں ہے احیاء علوم الدین میں ان کی درج ذیل تحریر سے مذکورہ دعویٰ باطل ہوجاتا ہے:
والأمر فی ھذا قریب ان لم ینتہ الی تقصیص اللحیۃ وتدویرھا من الجوانب فان الطول المفرط قد یشوہ الخلقۃ ویطلق ألسنۃ المغتابین بالنبذ الیہ فلا بأس بالاحتراز عنہ علی ھذہ النیۃ، وقال النخعی : عجبت لرجل عاقل طویل اللحیۃ کیف لا یأخذ من لحیتہ ویجعلھا بین لحیتین، فان التوسط فی کل شیٔ حسن،ولذلک قیل:کلما طالت اللحیۃ تشمر العقل۔۲؎
اور کتروانا نیچے سے کچھ مضائقہ نہیں ، بشرطیکہ نوبت داڑھی کے زیادہ
------------------------------
۱؎ دیکھئے المنھاج فی شعب الایمان ۳؍۸۶، ۸۷
۲؎ احیاء علوم الدین ۱؍۱۴۳