نہ پوچھی جس سے تمہیں دنیا وآخرت میں فائدہ پہونچتا ۔ یہ رات کی مٹتی ہوئی علامت ہے ۔
فضل بن زیاد کہتے ہیں کہ ایک شخص نے امام احمد بن حنبل ؒ سے باصرار مشکل مسائل دریافت کئے ، امام نے فرمایا یہ تم دو غلاموں ، دو آدمیوں کی بات کیاپوچھ رہے ہو؟ نماز اور زکوٰۃ کے باب میں کچھ پوچھو ، جس سے تمہیں نفع ہو ، اچھا بتاؤ روزہ دار کو احتلام ہوگیا تو کیا مسئلہ ہے ؟ اس نے کہا میں نہیں جانتا ، فرمایا کہ بس جس چیز سے نفع ہے اسے تو پوچھتے نہیں اور دو آدمیوں اور دو غلاموں کے متعلق پوچھ رہے ہو ، پھر امام صاحب نے حضرت حسن بصریؒ کے حوالے سے فرمایا کہ احتلام ہوجانے سے روزہ میں خلل نہیں پڑتا ۔ حضرت جابر بن زید سے احتلام کا مسئلہ دریافت کیا گیا ، تو فرمایا کہ روزہ میں کچھ نقصان نہیں البتہ آنکھ کھلنے کے بعد غسل کرنے میں دیر نہیں کرنی چاہئے ۔
ہم سمجھتے ہیں کہ اگر حضرات علماء خود کو بھی اور دوسروں کو بھی ان آداب کا پابند اور خوگر بنائیں ، جن کے پابند ائمۂ مسلمین رہے ہیں تو خود بھی علم سے نفع اندوز ہوں اور دوسروں کو بھی فائدہ پہونچاسکیں گے ، اور تھوڑے علم میں حق تعالیٰ برکت عطافرمائیں گے اور وہ منصب امامت پر اس کی برکت سے فائز ہوسکتے ہیں ۔
لاعلمی کا اعتراف:
عالم سے اگر کوئی ایسی بات پوچھی جائے جس کا اسے علم نہیں تو لاعلمی کے اظہار واعتراف میں کوئی عار وشرم نہیں محسوس کرنی چاہئے ، یہی طریقہ صحابۂ کرام اور ائمۂ مسلمین کا رہا ہے ، اس باب میں ان حضرات کو نبی کریم ﷺ کا اتباع حاصل ہے ، کیونکہ آپ سے بھی جب کوئی ایسی بات دریافت کی جاتی جس کا علم آپ کو بذریعہ ٔوحی نہ ہوچکا ہوتا تو بے تکلف فرمادیتے کہ مجھے معلوم نہیں ، یہ بات ہر اس شخص کے ذمے لازم ہے جس سے کوئی مسئلہ پوچھا گیا اوراس کے پاس اس کا یقینی علم نہیں ہے ، بس وہ