کے پاس جاؤ ، میں وہاں پہونچا ، ان سے دریافت کیا ، انھوں نے جواب دینا نہیں چاہا ، پھر لوٹ کر علقمہ کی خدمت میں حاضر ہوا اور پوری روداد کہہ سنائی ، فرمایا جانتے بھی ہو ، یہ بات پہلے معروف تھی کہ فتویٰ دینے پر وہی جری ہو گا جو سب سے کم علم ہوگا ۔
حضرت سفیان ثوریؒ فرماتے ہیں کہ جو یہ چاہے کہ اس سے مسائل دریافت کئے جائیں وہ مسائل پوچھے جانے کا اہل نہیں ، ابراہیم نخعیؒ فرماتے ہیں کہ میں نے مسائل پر گفتگو کرتو دی ہے ، لیکن اگر مجھے ذرا بھی اس سے چارہ ہوتا تو ہرگز کچھ نہ بولتا اور جس دور میں کوفہ کا فقیہ میں ہی رہ جاؤں توو ہ بہت برا دور ہے ۔
واقعہ سے پہلے فتویٰ سے احتراز :
حضرت خارجہ بن زید کے متعلق ابوالزناد فرماتے ہیں کہ جب ان سے کوئی مسئلہ دریافت کیاجاتا تو فرماتے کہ کیا ایسا واقعہ ہوچکا ہے ، اگر معلوم ہوتا کہ ہاں ہوچکا ہے ، تب جواب دیتے ، اور اگر معلوم ہوتا کہ واقعہ نہیں ہوا ہے ، بطور فرض کے پوچھا جارہا ہے تو جواب نہ دیتے ، ایک روایت میں یہ ہے کہ پوچھنے والے سے قسم بھی لیتے تھے ۔
حضرت مسروق فرماتے ہیں کہ میں حضرت اُبی بن کعبصکے ساتھ چل رہا تھا کہ ایک آدمی نے دریافت کیا کہ چچاجان ! فلاں فلاں بات کا کیا حکم ہے؟ فرمایا کہ کیا ایسا ہوچکا ہے؟ اس نے کہا نہیں ، فرمایا تب جانے دو ، جب ایسی کوئی بات ہوجائے تب پوچھنا ۔
صلت بن راشد کہتے ہیں کہ میں نے حضرت طاؤسؒ سے ایک مسئلہ دریافت کیا ،انھوں نے مجھے ڈانٹا اور فرمایا کہ کیا ایسا واقعہ ہوچکا ہے کہ تم پوچھ رہے ہو ، میں نے عرض کیا جی ہاں ! کہنے لگے قسم کھاؤ ، میں نے قسم کھائی ، فرمایا کہ ہمارے اساتذہ نے