شاگر دوں میں ابوالحسن حمالی اورعبدالرحمٰن بن عمربن نحاس کابھی نام آتاہے ،ان کے علاوہ بھی بہت سے حجاج اوراہل اندلس نے آپ سے حدیثیں روایت کی ہیں ۔
ائمہ علم کی نگاہ میں :۔خطیب نے آپ کوکان ثقۃ صدوقا(معتبراورسچے)سے تعبیرکیاہے ،ابن جوزی نے کان ثقۃ صدوقاً دیناًلکھاہے یعنی معتبر،سچے اور دیانتدار ۔ابن خلکان کی شہادت ہے کہ کان صالحاًعابداًنیک عابدنیزفقیہ ومحدث بھی لکھاہے، حافظ ذہبی نے اپنی تین کتابوں ’’تذکرۃ الحفاظ،العلو للعلی الغفاراورالعبرفی خبرمن غبر‘‘میں آپ کی مدح وستائش کی ہے ،چنانچہ تذکرۃ الحفاظ میں لکھتے ہیں کہ کان عالماًعاملاً صاحب سنّۃ واتباع۔عالم باعمل تھے ،متبع سنت وشریعت بزرگ تھے نیزانہیں محدث وفقیہ بھی لکھاہے اور’’العلو‘‘میں تحریرفرماتے ہیں کہ کان الآجرّی محدثاًاثریاًحسن التصانیف ۔آجری متبع سلف محدث تھے ان کی تالیفات بہترین ہیں ،العلومیں قوت حفظ اورزہدکی بھی تعریف کی ہے اورعبرمیں کان ثقۃ دیناً صاحب سنۃ لکھاہے نیزاس میں انہیں امام بھی لکھاہے ،حافظ ابن کثیرنے ’’البدایہ والنہایہ‘‘ میں معتبر،صادق اوردیانتدار لکھاہے،اوردوسرے علماء نے بھی بلندپایہ الفاظ میں آپ کی جلالت شان اوررفعت علم کی تعریف کی ہے۔
اضافہ ازمترجم:۔امام ابن خلکان فرماتے ہیں کہ بعض علماء نے مجھ سے بیان کیاکہ جب امام آجری مکہ معظمہ پہونچے توحق تعالیٰ سے دعاکی یااللہ مجھے ایک سال تک یہاں اقامت کی توفیق عطافرما،توایک فرشتہ غیبی کی آوازسنی کہ بلکہ تیس سال،پھروہیں طرح اقامت ڈالدی اورٹھیک تیس سال بعدیکم محرم ۳۶۰ھ میں رحلت فرمائی۔رحمہ اللہ رحمۃ واسعۃ۔
٭٭٭٭٭٭٭