خدا کے حضور میں
ایک عالم ربّانی کے یہ جتنے اوصافِ حمیدہ اور اخلاق فاضلہ ہم نے ذکر کئے ، یہ سب خداوند تعالیٰ کی توفیق سے کسی ا یسے عالم میں جمع ہوتے ہیں ، جسے ان سب کی توفیق مل گئی ہو ، پھر ظاہر ہے کہ خود خدا تعالیٰ کی جناب میں اس کے ذوقِ عبودیت اور شوقِ طاعت کا کیا حال ہو گا ۔ یقینا حق تعالیٰ اس کے قلب کو وہ کیفیت عطا فرمادیتے ہیں کہ اسے ایک طرح کی خصوصیت اور امتیاز حاصل ہوجاتا ہے ، اور یہ اس علم کی برکت ہے جس سے حق تعالیٰ نے اسے نوازکر انبیاء کا وارث اور اولیاء کا قرۃ عین اور بیماردلوں کا مسیحا بنایا ہے۔
اس کا حال سنئے ! وہ خدا تعالیٰ کا شاکر وذاکر ہوتا ہے ، محبت خدا وندی کی حلاوت سے سرشار ، مناجاتِ الٰہی میں فارغ ویکسو ، تمامتر طاعت وعبادت کے باوجود اپنے آپ کو گنہگار وخطاکار شمار کرتا اور حسن عمل پر دوام کے باوجود خود کو پُر تقصیر سمجھتا ہے ، خدا کی پناہ اس نے ڈھونڈھی ، خدا نے اسے قوت بخشی ، خدا پر اعتماد وتوکل کیا پھر کسی کا خوف دل میں نہیں لایا، اﷲ کو پاکر ہر چیز سے بے نیاز ہوگیا ، ہر چیز میں خدا ہی کا محتاج رہا ، اس کو اُنس ہے تو محض اﷲ سے ، اور وحشت ہر اس چیز سے ہے جو خدا سے اسے ہٹادے ، اس کا علم بڑھتا ہے تو خدا کی حجت پختہ ہونے سے خائف ہوتا ہے ، سابقہ اعمال صالحہ کے سلسلے میں عدمِ قبولیت سے ڈرتا رہتا ہے ، تلاوت کلام ا ﷲ کرتے وقت اس کی فکر رہتی ہے کہ اپنے مولیٰ کی بات سمجھ لوں اور سنت رسول میں اشتغال اس لئے