عمل بھی کرلیاکرتا ہے ، جس کو پڑھاتا ہے تو اسلئے پڑھاتا ہے کہ دنیا کا کچھ نفع حاصل ہو ، اگر یہ مقصد پورا ہوتا ہے تو آسانی سے اسے پڑھادیتا ہے اور اگر یہ مقصد پورا ہوتا دکھائی نہیں دیتا بلکہ صرف حصول آخرت ہی اس پر مرتب ہوتا ہے ، تو اسے گرانی ہونے لگتی ہے ، ایسے علم پر بھی ثواب کی امید باندھتا ہے جس پر اس کا عمل نہیں ۔ یہ نہیں سوچتا کہ اس پر کتنا سخت مواخذہ ہوگا ۔ جن لوگوں کے احوال مستور ومخفی ہیں ان کے ساتھ بدگمانی قائم کرکے اﷲ سے ثواب کی امید رکھتا ہے اور اس کا خوف اسے نہیں ہوتا کہ دنیاداروں کے ساتھ مداہنت کا برتاؤ کرکے خدا کے غضب میں گرفتار ہوچکا ہے ، حکمت کی باتیں بولتا ہے ،اور سمجھتا ہے کہ وہ اس کا اہل ہے اور یہ نہیں خیال کرتا کہ ترکِ عمل کی وجہ سے اس پرحجت الٰہی قوی ہوتی جارہی ہے ، کوئی بات جان لیتا ہے تو فخر وغرور سے اس کا سر اونچا ہوجاتا ہے اور اگر کوئی بات نہیں جانتا اور اسے ضرورت ہوتی ہے تو عار کی وجہ سے اسے چھوڑ دیتا ہے ۔
اگر اس کے دَور میں علماء کی تعداد زیادہ ہواور زمرۂ علماء میں ان کا شمار ہوتا ہو تو چاہتا ہے کہ اس کا بھی تذکرہ ان میں ہو ۔ اگر کسی مسئلہ میں اس سے سوال نہ کیا جائے اور دوسرے علماء سے پوچھا جائے تو اس کی دلی خواہش ہوتی ہے کہ مجھ سے دریافت کیا جائے ، حالانکہ اس پر اسے خدا کا شکرادا کرنا چاہئے تھا کہ چلو میں ذمہ داری سے چھوٹا ، اور اگر کسی دوسرے نے مسئلہ بتایا اور اس کا بتایا ہوامسئلہ غلط ثابت ہوگیا تو اسے بہت خوشی ہوتی ہے ، حالانہ اسے رنج ہونا چاہئے تھا ۔ اگر کسی عالم کی وفات ہوتی ہے تو یہ خوش ہوتا ہے کہ اب لوگ اس کے محتاج ونیازمند ہوں گے ، اگر اس سے کوئی ایسی بات پوچھی جائے جو اسے معلوم نہ ہوتو اسے اپنی لاعلمی کااقرارکرنے میں عار محسوس ہوتا ہے