مقصود و مطلوب ہے اس کا کچھ حصہ فوت ہوجاتا ہے تو اسے نہایت اُلجھن ہوتی ہے ، پھر اسے حاصل کرنے کے لئے سخت مشقت اُٹھاتا ہے اور جب وہ حاصل ہوجاتا ہے ، تو اسی سہولت سے اس پر عمل چھوڑدیتا ہے ، اور اپنے نفس کو عمل کا پابند نہیں بناتا ، جس طرح کہ حصول کا پابند بنایا تھا ۔ یہ بہت بڑی غفلت ہے ، اگر کوئی علم پڑھنے سے رہ گیا تو اسے تکلیف ہوتی ہے ، حالانکہ رنج کے لائق تو یہ بات ہے کہ علم حاصل ہوا ، خدا کی حجت اس پر قائم ہوگئی لیکن عمل نہ کرسکا ۔ اس پر افسوس کرے تو مناسب ہے ۔
ایسے عالم کی ایک بے ہودہ صفت یہ بھی ہے کہ نمائش کے لئے علم حاصل کرتا ہے اور لڑنے کے لئے دلائل فراہم کرتا ہے ، اس کا مناظرہ گناہ بنتا ہے ، مناظرہ سے اس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگوں پر اس کی فصاحت وبلاغت ظاہر ہوجائے ، اور اس کے فریق مقابل کا غلطی پر ہونا کھل جائے ، اگر اس کے مقابل کی زبان سے کوئی صحیح بات نکل جاتی ہے تواس پر بجائے خوش ہونے کے رنجیدہ ہوتا ہے ۔ یہ ایک بری خصلت ہے کہ شیطان کی مسرورکن باتوں سے اس کو خوشی ہوتی ہے ، اور رحمن کی پسندیدہ چیز سے اسے ناخوشی ہوتی ہے ، مناظرہ میں اگرکوئی انصاف نہ کرے تو اس پر اظہارِ تعجب کرتا ہے ، حالانکہ وہ خود ہر طرح کا ظلم وجور روا رکھتا ہے ، جاننے بوجھنے کے باوجود اپنی غلطیوں کے حق میں دلائل مہیا کرتا ہے ، اور اس اندیشہ سے کہ لوگ اس کو غلطی پر مذمت کریں گے ، اس کا اقرار نہیں کرتا ۔
جس سے تعلق ہوتا ہے اسے فتویٰ میں سہولت دیتا ہے ، اور جس سے تعلق نہیں ہوتا اس کے حق میں تشدد کرتا ہے ، بعض رائیں اسے ناپسند ہوتی ہیں لیکن اہل تعلق کو ضرورت ہوتی ہے تو سہولت کے خیال سے وہی ناپسندیدہ مسئلہ بتادیتا ہے ، بلکہ اس پر