اور تکلف کرکے ایسا جواب دیتا ہے جس کی گنجائش نہیں ہوتی ، اگر اسے معلوم ہو کہ فلاں آدمی مسلمانوں کے لئے اس سے زیادہ مفید ہے تو اس کی زندگی اسے ناپسند ہوجاتی ہے اور لوگوں کی رہنمائی اس کی جانب نہیں کرتا ۔ اگر اس نے کوئی بات بتائی اس کی یہ بات مان کر لوگوں نے اتباع کرلیا اور جاہلوں کے نزدیک اس کی وجہ سے ایک مقام ومرتبہ اسے حاصل ہوگیا ، پھر معلوم ہوا کہ بات غلط تھی ، تو اب اسے اپنی غلطی کاا عتراف کرنے میں عار محسوس ہوتا ہے ۔ غلطی کا اعتراف تو ایک طرف رہا اس اندیشہ سے کہ اس کا مرتبہ مخلوق کی نگاہ سے گرنہ جائے ، اپنے اس غلط قول کی حمایت میں دلائل فراہم کرنے لگتا ہے ۔
اپنے علم کو لے کر بادشاہوں اور دنیاداروں کے سامنے جھکتا ہے تاکہ ان سے کچھ دنیا اور حطام دنیا حاصل کرسکے ، اور اس کیلئے کوئی خوبصورت تاویل تراش لیتا ہے ، اوراگر فقیر یا مجہول الحال شخص ہو جس پر مال وجاہ کا اثر ظاہر نہ ہو تو اس پر اکڑتا اور تکبر کرتا ہے اور اسے اپنے علم کے فیض سے محروم رکھتا ہے ، اور اس کیلئے بھی توجیہ تلاش کرلیتا ہے ، اپنے کو زمرۂ علماء میں شمار کرتا ہے ، حالانکہ اعمال اسکے سب احمقوں والے ہیں ۔ دنیا کی محبت ، جھوٹی تعریف کی خواہش اور جاہ ومنزلت کی حرص نے اس کو فتنہ میں ڈال رکھا ہے ، علم کے ذریعہ اپنی ایسی آرائش کرتا ہے جیسے کوئی خوبصورت عورت کپڑوں سے اپنے کو سنوارتی ہے ، لیکن اپنے علم کو عمل سے مزین نہیں کرتا ۔
ہر عالم کو چاہئے کہ ان خصائل پر اچھی طرح غور کرلے ، اگر اس کے اندر ان باتوں میں سے کوئی چیز موجود ہوتو اﷲ سے شرمائے اور فوراً درستگی اور حق کی جانب رجوع ہو ، اب ہم اس سلسلے میں کچھ آثار وروایات نقل کرتے ہیں ۔