اس کی جانب لپک کر گئے ۔ فضیل ہی فرماتے ہیں کہ علماء بہت ہیں اور حکماء کم ہیں ، علم کا مقصد حکمت ہی ہے ، جسے حکمت دی گئی اسے بہت کچھ بھلائی دے دی گئی۔
حضرت فضیل بن عیاض کے اس قول کا مطلب غالباً یہ ہے کہ بہت کم علماء اپنے علم کو طلب دنیا سے محفوظ رکھ پاتے ہیں اور اسے طلب آخرت کا ذریعہ بناتے ہیں ، ورنہ اکثر علماء تو اپنے علم کی وجہ سے فتنہ میں پڑجاتے ہیں ، اور حکماء قلیل ہیں یعنی علم کے ذریعے آخرت طلبی کیسی کچھ عزیز چیز ہے کہ یہی لوگ حکماء ہیں اور بہت کم ہیں ۔
حضرت ابوہریرہ صرسول اﷲ ﷺکا ارشاد نقل کرتے ہیں کہ :
مَنْ تَعَلَّمَ عِلْماً مِمَّا یُبْتَغیٰ بِہٖ وَجْہُ اﷲِ لَا یَتَعَلَّمَہٗ إلّا لِیُصِیْبَ بَہٖ عَرَضاً مِنَ الدُّنْیَا لَمْ یَجِدْ عَرْفَ الْجَنَّۃِ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ
علم ،جس سے رضاء خداوندی حاصل ہوتی ہے ، اس کے حاصل کرنے میں جس نے محض یہ نیت رکھی کہ دنیا کا کوئی ساز وسامان حاصل کرے گا ، وہ قیامت کے دن جنت کی خوشبو تک سے محروم رہے گا ۔
حضرت ابن مسعود ص فرماتے ہیں کہ اگر اہل ِعلم ،علم کی حفاظت کریں اور اسے لائق افراد کے حوالے کریں تو اس کی وجہ سے اہل زمانہ کے سردار ہوجائیں ، لیکن انھوں نے اسے اہل دنیا کی رضاجوئی میں صَرف کیا تاکہ ان کی دنیا سے کچھ حصہ حاصل کریں ، اس کی وجہ سے ان کی نگاہ میں ذلیل ہوگئے ، میں نے خود تمہارے نبی ﷺ کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ :
مَنْ جعل الھموم ھماً واحداً ھمّ آخرتہٖ کفاہ اﷲ ھمّ دنیاہ ومن تشعبت بہ ھموم أحوال الدنیا لم یبال اﷲ فی أی أودیتھا ھلک۔