ہوتا ہے کہ اس میں تفقہ حاصل کرلے ، مبادا کوئی حکم ضائع نہ ہوجائے ، قرآن وسنت کے آداب سے مزین ہوتا ہے ، اہل دنیا سے دنیاوی عزت کے سلسلے میں کوئی مسابقت نہیں کرتا اور دنیاوی ذلت سے اسے کچھ گھبراہٹ نہیں ہوتی ، زمین پر تواضع ، وقار اور سکون کے ساتھ چلتا ہے ، اس کادل ہر وقت عبرت پذیری میں مشغول رہتا ہے ، اگر کبھی اس کا دل اﷲ کی یاد سے خالی ہوجائے تو اس کے نزدیک سخت مصیبت ہے ، اگر اﷲ کی اطاعت بغیر حضور قلب کے ہوتو سخت محرومی اور خسارہ ، ذاکروں کے ساتھ ذاکر ، غافلوں کی حالت سے عبرت پذیر ، اپنے عیوبِ نفس سے واقف اور اسے مُتَّہم جاننے والا ، علوم میں اتنی وسعت کہ سمجھ بالکل کھلی ہوئی ، جس کا اثر یہ ہے کہ ذاتِ حی و قیوم سے حیاوشرم اس کے دل میں سما گئی ، تمام اعمال میں مشغولی بحق مسلسل اور ماسوااﷲ سے انقطاع ویکسوئی مکمل ۔
اب تم پوچھ سکتے ہو کہ علماء کے یہ اوصاف جو آپ نے شمار کرائے ہیں کیا ان کی کوئی اصل قرآن وسنت یا آثارِ صحابہ وتابعین میں ہے ؟ میں کہوں گا کہ بے شک اور ابھی ہم اس کے دلائل ذکر کرتے ہیں ، غور سے سنو! اﷲ تعالیٰ کا ارشاد ہے :
إِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُواالْعِلْمَ مِنْ قَبْلِہٖ إِذَا یُتْلیٰ عَلَیْھِمْ یَخِرُّوْنَ لِلْأَذْقَانِ سُجَّداً وَّیَقُوْلُوْنَ سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنْ کَانَ وَعْدُ رَبِّنَا لَمَفْعُوْلاً وَ یَخِرُّوْنَ لِلْأَذْقَانِ یَبْکُوْنَ وَیَزِیْدُھُمْ خُشُوْعاً۔
جن لوگوں کو اس سے پہلے علم عطا کیا جاچکا ہے ، جب ان کے سامنے قرآن کی تلاوت کی جاتی ہے تو وہ منہ کے بل سجدے میں گر جاتے ہیں ، اور کہتے ہیں کہ اﷲ پاک ہے ہمارا رب ، بلا شبہ ہمارے رب کا وعدہ پورا ہونے والاتو تھاہی ، اور منہ کے بل