ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2017 |
اكستان |
|
اے فلاں حضرت اگر میرا عزیز جو غائب ہے وہ واپس آگیا یا میرا عزیز جو بیمار ہے اچھا ہو گیا یا میری یہ ضرورت پوری ہوگئی تو میںآپ کے لیے (آپ کے نام کا) اتنا سونا پیش کروں گا یااتنا کھانا کھلاؤں گا یااتنا پانی پلاؤں گا (سبیل لگاؤں گا) یااتنی موم بتیاں دُوں گا یااتنا تیل دُوں گا پس یہ منت باطل ہے غلط اور ناجائز ہے علماء کا اِس پر اتفا ق ہے ایسے منتوں کے باطل ہونے کی بہت سی وجوہات ہیں : ایک یہ کہ وہ نذر اور منت ہے مخلوق کے لیے اور مخلوق کے لیے منت ماننا جائز نہیں کیونکہ نذر اور منت عبادت ہے اور عبادت مخلوق کے لیے نہیں ہوتی۔ ایک وجہ یہ ہے کہ جس کے لیے منت مانی جا رہی ہے (کہ آپ کو اتنا سونا دُوں گا) وہ میت ہے میت مالک نہیں ہوتا اُس کو دینے کے کوئی معنی نہیں۔ ایک یہ کہ یہ تصور کرنا کہ میت (اور جس کے نام کی منت مانی جا رہی ہے وہ ) ہونے والے اُمور میں اللہ سے الگ رہ کر تصرف کرتا ہے، اور اِس کا اعتقاد رکھنا کفر ہے ۔معاذ اللہ !نذر کا صحیح طریقہ : قَالَ یَا اَللّٰہُ اِنِّیْ نَذَرْتُ لَکَ اِنْ شَفَیْتَ مَرِیْضِیْ اَوْ رَدَدْتَّ غَائِبِِیْ اَوْ قَضَیْتَ حَاجَتِیْ اَنْ اُطْعِمَ الْفُقَرَائَ الَّذِیْنَ بِبَابِ السَّیِّدَةِ نفِیْسَة اَوِ الْفُقَرَائِ الَّذِیْنَ بِبابِ الْاِمَامِ الشَّافِعِیْ اَوِالْاِمَامِ اَبِیْ اللَّیْثِ اَوِأشْتَرٰی حَصِیْرًا لِمَسَاجِدِہِمْ اَوْ زَیْتًا لِوَقُوْدِہَا اَوْ دَرَاہِمَ لِمَنْ یَّقُوْمُ بِشَعَائِرِہَا اِلٰی غَیْرِ ذٰلِکِ مِمَّا یَکُوْنُ فِیْہِ نَفْع لِلْفُقَرَائِ وَالنَّذْرُ لِلّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ وَذِکْرُ الشَّیْخِ اِنَّمَا ہُوَ مَحَل لِصَرْفِ النَّذْرِ لِمُسْتَحِقِّیْہِ الْقَاطِنِیْنِ بِرِبَاطِہ اَوْمَسْجِدِہ اَوْ جَامِعِہ فَیَجُوْزُ بِہٰذَا الْاعْتِبَارِ اِذْ مَصْرَفُ النَّذْرِ الْفُقَرَائُ وَقَدْ وُجِدَ الْمَصْرَفُ وَلَا یَجُوْزُ اَنْ یُصْرَفَ ذٰلِکَ لِغَنِیٍّ غَیْرِ مُحْتَاجٍ وَلَا لِشَرِیْفٍ مَنْصَبٍ لِاَنَّہُ لَا یَحِلُّ لَہُ الاَخْذُ مَالَمْ یَکُنْ مُحْتَاجًا اَوْ فَقِیْرًا وَلَا لِذِی النَّسَبِ لِاَجْلِ نَسَبِہ مَالَمْ یَکُنْ فَقِیْرًا وَلَا لِذِیْ عِلْمٍ لِاَجْلِ عِلْمِہ مَا لَمْ یَکُنْ فَقِیْرًا وَلَمْ یَثْبُتْ فِی الشَّرْعِ جَوَازُ الصَّرْفِ