ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2017 |
اكستان |
|
قسط : ٤ ، آخریوضو کے فضائل اور اُس کی برکات ( حضرت مولانا محمد منظور صاحب نعمانی )وضو میں پانی بے ضرورت نہ بہایا جائے : (٢٨) عَنْ عَبْدِ اللّٰہِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ اَنَّ النَّبِیَّ ۖ مَرَّ بِسَعْدٍ وَھُوَ یَتَوَضَّأُ فَقَالَ مَا ھٰذَا السَّرَفُ یَا سَعْدُ قَالَ اَفِی الْوُضُوْئِ سَرَف ؟ قَالَ وَاِنْ کُنْتَ عَلٰی نَھْرٍ جَارٍ۔ ( احمد و ابن ماجہ) ''حضرت عبد اللہ بن عمرو بن العاص رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ سعد بن اَبی وقاص وضو کر رہے تھے (اور پانی کے استعمال میں فضول خرچی سے کام لے رہے تھے) رسول اللہ ۖ ان کے پاس سے گزرے توآپ نے ان سے فرمایا سعد ! یہ کیسا اسراف ہے ؟ (یعنی پانی بے ضرورت کیوں بہایا جارہا ہے ) انہوں نے عرض کیا حضور ! کیاوضو کے پانی میں بھی اسراف ہوتاہے (یعنی کیا وضو میں پانی زیادہ خرچ کرنا بھی اسراف میں داخل ہے ) آپ نے فرمایا ہاں یہ بھی اسراف میں داخل ہے اگرچہ تم کسی جاری نہر کے کنارے ہی پر کیوں نہ ہو۔ '' تشریح : اس حدیث سے معلوم ہوا کہ وضو کے آداب میں سے یہ بھی ہے کہ پانی کے استعمال میں اسراف سے کام نہ لیا جائے۔وضو کے بعد تولیہ یا رُومال کااستعمال : (٢٩) عَنْ مُّعَاذِ بْنِ جَبَلٍ قَالَ رَأَیْتُ رَسُوْلَ اللّٰہِ ۖ اِذَا تَوَضَّاَ مَسَحَ وَجْھَہ بِطَرْفِ ثَوْبِہ۔ (ترمذی شریف)