ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2017 |
اكستان |
|
ذکر الٰہی کے لیے ایک مغز اور تین پوست ہیں اور مغز تو مقصود بالذات ہے مگر پوست اس لیے مقصود اور محبوب ہیں کہ وہ مغز تک پہنچنے کے ذرائع اور اسباب ہیں۔ ٭ پہلا پوست : صرف زبان سے ذکر کرنا ہے۔ ٭ دوسراپوست : قلب سے ذکر کرنا اور جبراً بتکلف اس کا خوگر (عادی) ہونا ہے۔ یادرکھو کہ قلب کو اپنی حالت پر چھوڑنا نہ چاہیے کیونکہ اس کو تفکرات اور تخیلات میں پڑنے سے پریشانی ہوتی ہے لہٰذا مناسب ہے کہ اس کی مرغوب شے یعنی ذکر الٰہی اس کے حوالہ کر دی جائے تاکہ اس کو اطمینان حاصل ہو جائے۔ ٭ تیسرا پوست : یہ ہے کہ ذکر الٰہی قلب میں جگہ کر لے اور ایسا گڑھ جائے کہ اس کا چھڑانا دُشوار ہو جائے، اس کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے درجہ میں جس طرح قلب کو ذکر کی عادت ڈالنے میں دقت پیش آئی ہوئی تھی اس تیسرے درجہ میں قلب سے ذکر اللہ کی عادت چھڑانا اس سے زیادہ دشوار ہو۔فنا اور فنا الفنا کی ماہیت اور تمثیل سے اس کا سمجھنا : ٭ چوتھا پوست : جو مغز اور مقصود بالذات ہے وہ یہ ہے کہ قلب میں ذکر کا نام و نشان بھی باقی نہ رہے بلکہ مذکور یعنی اللہ تعالیٰ کی ذات ہی ذات رہ جائے کہ نہ قلب کی طرف توجہ رہے نہ ذکر کی جانب التفات اور نہ اپنی خبر ہو نہ کسی دوسرے کی، غرض ذاتِ باری میں استغراق ہو جائے اسی حالت کا نام ''فنا ''ہے اور اس حالت پر پہنچ کر بندہ کو نہ اپنی ظاہری حس و حرکت کا کوئی علم ہوتا ہے اور نہ باطنی عوارض کا یہاں تک کہ اپنے فنا ہوجانے کا علم بھی باقی نہیں رہتا کیونکہ فنا ہو جانا بھی تو اللہ کے علاوہ دوسری ہی چیز ہے اور غیر اللہ کا خیال میل کچیل اور کدورت ہے پس فنا کا علم بھی اس درجہ میں پہنچ کر کدورت اور بُعد ہوا یہی وہ حالت ہے جس میں اپنے وجود کے فنا کے ساتھ خود فنا سے بھی فنائیت ہوتی ہے ،ایسی محویت سمجھ میں آنی مشکل ہے بلکہ بظاہر ناممکن اور دعوی بلا دلیل معلوم ہوگا۔