ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2017 |
اكستان |
|
لِلاَغْنِیَائِ لِلْاِجْمَاعِ عَلٰی حُرْمَةِ النَّذْرِ لِلْمَخْلُوْقِ وَلَا یَنْعَقِدُ وَلَا تَشْتَغِلُ الذِّمَّةُ بِہِ وَلِأَنَّہُ حَرَام بَلْ سُحْت وَلَا یَجُوْزُ لِخَادِمِ الشَّیْخِ اَخْذُہ وَلَا اَکْلُہ وَلَا التَّصَرُّفُ فِیْہِ بِوُجوْہٍ مِّنَ الْوُجُوْہِ اِلَّا اَنْ یَّکُوْنَ فَقِیْرًا وَلَہ عِیَال فُقَرَائُ عَاجِزُوْنَ عَنِ الْکَسْبِ وَہُمْ مُضْطَرُّوْنَ فَیَأْخُذُوْنَہ عَلٰی سَبِیْلِ الصَّدَقَةِ الْمُبْتَدَأَةِ فَاَخْذُہ اَیْضًا مَکْرُوْہ مَالَمْ یَقْصِدْ بِہِ النَّاذِرُ التَّقَرُّبَ اِلَی اللّٰہِ تَعَالٰی وَصَرْفَہ اِلَی الْفُقَرَائِ وَیَقْطَعُ النَّظْرَ عَنْ نَذِّرِ الشَّیْخِ فَاِذَا عَلِمْتَ ہٰذَا فَمَا یُؤْخَذُ مِنَ الدَّرَاہِمِ وَالشَّمَعِ وَالزَّیْتِ وَغَیْرِہَا وَیُنْقَلُ اِلَی ضَرَائِحِ الْاَوْلِیَائِ تَقَرُّبًا اِلَیْہِمْ فَحَرَام بِِاِجْمَاعِ الْمُسْلِمِیْنَ مَالَمْ یَقْصِدُوْا بِصَرْفِہَا لِلْفُقَرَائِ الْاَحْیَائِ قَوْلًا وَاحِدًا .( البحرالرائق ج٢ ص ٣١٧) ''البتہ اگر یہ کہا ہے اے میرے اللہ تیرے لیے منت کرتا ہوں (نذرکرتا ہوں) کہ اگر تونے میرے بیمار کو شفا دے دی یا جو میرا عزیز غائب ہے اُسے واپس پہنچا دیا یا میری ضرورت پوری کردی تو میں اُن فقیروں کوجو (مثلاً) سیّدہ نفیسہ کی ڈیوڑھی پر رہتے ہیں یا اُن فقراء کو کھانا کھلاؤں گا جو امام شافعی رحمہاللہ یااِمام ابو لیث کی ڈیوڑھی پر رہتے ہیں یااُن کی مسجدوں کے لیے چٹائیاں خریدوں گا یااُن مسجدوں کے چراغوں کے لیے تیل دُوں گایا جو اِن درگاہوں میں خدمات انجام دیتے ہیں (خدام یا منتظمین) کو اتنے درہم دُوں گا (وغیرہ وغیرہ) یعنی منت اس طرح مانتا ہے جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ نفع اور فائدہ فقراء کو پہنچے اور نذر اللہ کے لیے ہو اور اُس شیخ یا ولی اللہ کا ذکر اِس منت یا نذر کی چیز کے خرچ کرنے کے مصرف کے طور پر ہو کہ جو ضرورت مند مستحق امداد اس شیخ کی درگاہ یا اُس کی مسجد میں یااُس کے مدرسے میں رہتے ہیں تواِس نیت کے ساتھ نذر جائز ہوگی اس لیے کہ نذر کا مصرف فقیرا ور ضرورت مند ہوا کرتے ہیں وہ یہاں ہیں ان ہی پر منت کی چیز خرچ کی جائے گی۔ اور یہ جائز نہیں ہے کہ منت (چڑھاوے) کی یہ چیز کسی غنی کو دی جائے جو