ماہنامہ انوار مدینہ لاہور جون 2017 |
اكستان |
|
سال کی ہر رات کو عبادت سے معمور کرے اس طرح وہ یقینی طور پر شب قدر کی برکات پاسکے گا، زربن حُبیش نے حضرت ابن مسعود کی یہ بات نقل کرکے حضرت اُبی بن کعب سے دریافت کیاکہ آپ کا اس بارے میں کیا ارشاد ہے ) انہوں نے فرمایا کہ بھائی ابن مسعود پر خدا کی رحمت ہو اُن کا مقصد اس بات سے یہ تھا کہ لوگ (کسی ایک رات کی عبادت پر) قناعت نہ کر لیں، ورنہ اُن کو یہ بات یقینا معلوم تھی کہ شب ِ قدر رمضان ہی کے مہینہ میں ہوتی ہے اور اس کے بھی خاص آخری عشرہ ہی میں ہوتی ہے اور وہ متعین طور پر ستائیسویں شب ہے، پھر انہوں نے پوری قطعیت کے ساتھ قسم کھا کر کہا کہ وہ بلا شبہ ستائیسویں شب ہی ہوتی ہے (اور اپنے یقین و اطمینان کے اظہار کے لیے قسم کے ساتھ) انشاء اللہ بھی نہیں کہا، زربن حبیش کہتے ہیں میں نے عرض کیا کہ اے ابو المنذر یہ حضرت اُبی کی کنیت ہے یہ آپ کس بناء پر فرماتے ہیں ؟ انہوں نے فرمایا کہ میں یہ بات اس نشانی کی بناء پر کہتا ہوں جس کی رسول اللہ ۖ نے ہم کو خبر دی تھی اور وہ یہ کہ شب ِ قدر کی صبح کوجب سورج نکلتا ہے تو اُس کی شعاع نہیں ہوتی۔ '' ان تمام روایات سے یہ نتیجہ حاصل ہوتا ہے کہ اوّل تو ہمیں سارے رمضان کی راتوں میں اللہ کی اطاعت و عبادت میں لگے رہنا چاہیے، اگر یہ مشکل ہوتو آخری عشرے کی طاق راتوں میں شب ِ قدر کی جستجو کرنی چاہیے ،اگر یہ بھی دشوار ہو تو آخری درجہ یہ ہے کہ کم از کم ستائیسویں شب کو توغنیمت ِباردہ سمجھتے ہوئے ضرور ہی اس کی جستجو میں لگنا چاہیے،حقیقت یہ ہے کہ یہ ایک بڑی دولت ہے جس کا حصول بہت بڑی سعادت ہے جس کے مقابلہ میں دنیا بھر کی نعمتیں اور راحتیں ہیچ ہیںاوراس سے محرومی بڑی شقاوت اور بد نصیبی کی بات ہے۔شب ِ قدر سے محرومی بڑی محرومی ہے : حضور علیہ الصلٰوة والسلام کا ارشاد ہے :