تجلیات الہیہ کی غیر فانی لذت |
ہم نوٹ : |
|
تو دوستو! لَاۤ اِلٰہَ میں اللہ نے اِلٰہَ اس لیے فرمایا ہے کہ جتنی زیادہ ان باطل خداؤں کی جڑ مضبوط ہوگی، لَا کی تلوار اتنے ہی گہری چلانی پڑے گی پھر تمہیں میرا اَنْتَ اتنا ہی گہرا محسوس ہوگا یعنی میری تجلیات، میرا نور تمہارے دل میں زیادہ گھسے گا۔ اسی لیے خواجہ صاحب فرماتے ہیں ؎ نہ گھبرا کوئی دل میں گھر کررہا ہے مبارک کسی کی دل آزاریاں ہیں ایذائے خلق لقائے خالق کا ذریعہ ہے جب کسی کے دل میں کسی بھی قسم کی پریشانی آئے پڑوسی ستائیں، رشتہ دار ستائیں، دوست احباب ستائیں یا اپنے نفس کے گندے تقاضوں سے، گناہوں کے تقاضوں سے، وسوسوں سے بہت پریشان رہتا ہے، مگر اللہ اللہ بھی کرتا ہے تو فرمایا گھبراؤ مت، اللہ میاں تمہارے دل میں اپنا گھر بنارہے ہیں۔ جب گھر بنتا ہے تو کھدائی ہوتی ہے، روڑی وغیرہ ڈالی جاتی ہے،کُٹائی ہوتی ہے، کچھ شور و غل ہوتا ہے۔لہٰذا دل میں پریشانیوں کا شور و غل آئے تو سمجھ لو ؎ بڑھ گیا ان سے تعلق اور بھی دشمنی خلق رحمت ہوگئی کبھی مخلوق کی دشمنی بھی رحمت بن جاتی ہے۔لہٰذا اللہ نے بتادیا کہ رحمت حاصل کرنے کے بعد اَنْتَ سُبۡحٰنَکَ کہو،اللہ کا شکر ادا کرو۔ اگر کوئی خارستان سے نکل کر گلستان میں آجائے جہاں پھول ہی پھول ہوں تو شکر ادا کرتا ہے یا نہیں؟ تو سڑکوں پر پھرنے والی ناپاک لاشوں سے نکل کر جو بندہ اللہ تک پہنچتا ہے تو کیا اسے سُبۡحٰنَکَ نہیں کہنا چاہیے؟ کہ الحمدللہ کانٹوں سے چھوٹ کر پھولوں میں آگئے، ناپاکوں سے چھوٹ کر پاک ذات کی طرف آگئے۔یہ سُبۡحٰنَکَ کا جو مقام ہے یہ تشکر کے طور پر ہے یعنی اللہ کا شکر ہے کہ اللہ آپ نے ہمیں اپنی پاک ذات سے تعلق عطا فرما دیا۔ اب چوں کہ کچھ دن خارستان سے دل لگایا تھا، ناپاکوں سے دل لگایا تھا لہٰذا اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ کہہ کر اپنی اس نالائقی کا اعتراف بھی کرو کہ اللہ میرا جو زمانہ گناہوں