تجلیات الہیہ کی غیر فانی لذت |
ہم نوٹ : |
|
حسن بہت بڑھ گیا ہے،یہ حسن کہاں سے لائے ہو؟ وہ کہیں گے کہ اللہ میاں نے ہمیں دیکھا ہے، ان کا جلوہ ہمارے چہرے میں جذب ہوگیا۔ حضرت صفورہ علیہا السلام کا دیدارِ انوارِ الٰہی جب حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کوہِ طور پر اللہ کا جلوہ دیکھا تو ان کے چہرے پر اللہ کے جلوے کا نور سرایت کرگیا، اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اے موسیٰ تم نے میرا جلوہ دیکھ لیا، اب تمہارے چہرے کو بے پردہ کوئی نہیں دیکھ سکتا، اگر لوہے کا نقاب ڈالوگے تو بھی میرا نور اس کو پھاڑ دے گا لہٰذا اپنے چہرے پر اس کمبل کا نقاب لگاؤ جس کو تم کوہِ طور پر پہنے ہوئے تھے کیوں کہ اس نے میرا جلوہ دیکھ لیا ہے،وہ کپڑامیرے نور کو برداشت کرسکتا ہے۔حضرت موسیٰ علیہ السلام نے کمبل کا ٹکڑا کاٹا اور چہرے پر ڈال کر اپنی زوجہ مطہرہ حضرت صفورہ علیہا السلام کے پاس تشریف لائے۔انہوں نے پوچھا کہ آپ نے چہرہ پر پردہ کیوں ڈال رکھا ہے؟ آپ کا چہرہ دیکھ کر تو ہمارا دل خوش ہوتا ہے اور آپ نے اپنا چہرے ہی چھپالیا۔ فرمایا کہ اے صفورہ گر تو آج مجھے بغیر پردہ کے دیکھے گی تو تیری آنکھ کی روشنی ختم ہوجائے گی کیوں کہ آج مجھے کوہِ طور پر اللہ کا جلوہ نظر آیا ہے اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ آپ کے چہرے میں ہمارا نور سرایت کرگیا، اب آپ کا چہرہ کوئی مخلوق نہیں دیکھ سکتی،اگر آپ لوہے کا نقاب بھی پہنیں گے تو اس میں سے بھی ہمارا نور ظاہر ہوجائے گا لہٰذا آپ اس کمبل کا ٹکڑا لیں جو آپ نے کوہ طور پر پہنا ہوا تھا، اس نے میری تجلی دیکھ لی ہے، وہ اسے برداشت کرلے گا کیوں کہ وہ آپ کے جسمِ نبوت پر تھا ،آپ کے جسم کی برکت سے اس کمبل کے ٹکڑے میں بھی طاقت آگئی۔ اس سے ایک بات معلوم ہوئی کہ اللہ والوں کے جسم پر جو کپڑا ہوتا ہے اور اللہ والوں کے جسم سے جو سانس نکلتی ہے اس میں بھی اللہ کا نور ہوتا ہے،چوں کہ ان کے قلب میں اللہ کا نور ہوتا لہٰذا ان کے جسم سے جو سانس نکلتی ہے اس سانس کے اندر بھی اللہ کی رحمتوں اور ہدایت کے انوار ہوتے ہیں۔ تو حضرت صفورہ نے کہا کہ یہ میرے بس کی بات نہیں ہے کہ میں آپ کا چہرہ نہ دیکھوں، انہوں نے فرمایا کہ اگر بے پردہ دیکھو گی تو آنکھ کی روشنی ضایع ہوجائے گی۔ حضرت صفورہ نے عرض کیا کہ میری آنکھ رہے یا نہ رہے میں آپ کا چہرہ ضرور دیکھوں گی کیوں کہ نبی