تجلیات الہیہ کی غیر فانی لذت |
ہم نوٹ : |
|
لیے کبھی مضمون بھی عجیب و غریب دے دیتے ہیں تو عزت افزائی ہوجاتی ہے ورنہ مٹی میں کیا ہے؟ اگر مٹی چمک رہی ہے تو سمجھ لو کہ اس پر سورج کی شعاعیں پڑرہی ہیں، یہ مٹی کا کمال نہیں ہے، مٹی کا رنگ تو مٹیالہ ہے، اگر اس میں چمک آرہی ہے تو یہ سورج کا کرم ہے لہٰذا اسے سورج کا شکریہ ادا کرنا چاہیے۔اگر مٹی کہے کہ میں چمک دار ہوں اور اس پر اکڑنا شروع کردے تو جس دن سورج اپنی شعاع ہٹالے گا تب معلوم ہوگا کہ مٹی میں کیا تھا۔ سارا معاملہ اللہ کے فضل سے ہے، اگر اللہ اپنا کرم مقرر پر نہ کرے تو سچ کہتا ہوں کہ وہ اپنے کو بالکل جاہل سمجھے، اسے کچھ سمجھ میں نہ آئے کہ کیا بولنا چاہیے۔ گناہ کے تقاضے تقویٰ میں ترقی کا سبب ہیں اب ایک بات اورعرض کردوں کہ اَنْتَ سُبْحَانَکَ سے پہلے اللہ نے جو لَااِلٰہَ سکھایا ہے اس میں ہے کہ نفس کی محبوب سے محبوب تر خواہش جس کو اللہ نے منع کیا ہے،ہم پرحرام فرمایا ہے،اس کو لَا کی تلوار سے قربان کردو۔اللہ نے جو خواہشات پیدا کی ہیں ان سے مت گھبراؤ،یہ خواہشات قربانی کے دنبے ہیں لہٰذا یہ نہ سوچو کہ یہ حرام خواہشات کیوں پیدا ہوتی ہیں؟ کوئی ایسی ٹھنڈی دوا بھی نہ کھاؤ کہ یہ خواہشات ختم ہوجائیں کیوں کہ اگر قربانی کے دنبے نہیں ملیں گے تو قربانی کیسے کروگے؟ اگر بقرہ عید کے زمانے میں قربانی کےجانور کم ہوجائیں، بازار میں نہ ملیں تو کتنی پریشانی ہوگی۔ اللہ نے دل میں جو بُری بُری خواہشات دی ہیں ان سے گھبرایا مت کرو،یہ قربانی کے دنبے ہیں، جب دل میں بُری خواہش آئی تو شکر ادا کرو کہ الحمدللہ قربانی کا دنبہ آگیا، اب اِلٰہَ کی تلوار سے اس کو ذبح کردو یعنی حرام خواہش پر عمل نہ کرو، بُرے تقاضوں پر عمل نہ کرو اور اس پر اللہ کا شکر بھی ادا کرو کہ اللہ نے ہمیں ان ناجائز خواہشات پر عمل کرنے سے بچایا۔ حفاظتِ نظر پر حلاوتِ ایمانی کا وعدہ نظر کی حفاظت پراللہ تعالیٰ کاوعدہ ہے،حدیثِ قدسی میں ہےاللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں کہ جب انسان اپنی نظر بچاتا ہے، بُری جگہ ڈالنے سے آنکھوں کو بچاتا ہے یَجِدُ فِیْ قَلْبِہٖ