تجلیات الہیہ کی غیر فانی لذت |
ہم نوٹ : |
|
میں گزرا بدنگاہی کی، سینما دیکھا، گانے سنے اور اللہ اب تک جتنی حرام لذتیں درآمد کی ہیں اپنی رحمت سے ہم کو معاف کردیجیے۔ اِنِّیۡ کُنۡتُ مِنَ الظّٰلِمِیۡنَ ہم قصور وار بندے ہیں، ہم سے غلط کام ہوگیا خصوصاً گانے سننے کا مرض بہت ہی بُرا مرض ہے۔ گانے سننا کبیرہ گناہ ہے حدیث شریف میں آیا ہے: إِنَّ الْغِنَاءَ یُنْبِتُ النِّفَاقَ فِیْ الْقَلْبِ کَمَا یُنْبِتُ الْمَاءُ الزَّرْعَ 20 ؎گانا نفاق کو ایسے اُگاتا ہے جیسے پانی کھیتی کو اُگاتا ہے ۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک آدمی تھا نضر بن حارث جو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دشمن تھا ، وہ گانے والی لونڈیوں کو خریدتا تھا اور جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم اعلان کرتے تھے کہ آج قرآنِ پاک کی یہ آیت نازل ہوئی ہے تو وہ کمبخت کہتا تھا کہ وہاں مت جاؤ، وہ تو تمہیں روزہ نماز کرائیں گے، میں یہ گانے والی خوبصورت لونڈیاں لایا ہوں، ان کا گانا سنو، یہ شراب بھی پلواتا تھا اور ان لونڈیوں کو سِکھا رکھا تھا کہ جب تمہارے پاس کوئی آئے تو اسے شراب بھی پلاؤ اور گانا بھی سناؤ۔ لہٰذا اس وقت یہ آیت نازل ہوئی: وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّشۡتَرِیۡ لَہۡوَ الۡحَدِیۡثِ 21؎اور کچھ لوگ وہ ہیں جو اللہ سے غافل کرنے والی باتوں کے خریدار بنتے ہیں۔ علامہ آلوسی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ حضرت عبداللہ ابنِ مسعود رضی اللہ عنہ نے قسم اٹھائی ھُوَ وَ اللہِ الْغِنَاءُ 22؎ کہ میں قسم اٹھاتا ہوں کہ اس آیت سے اللہ تعالیٰ کی مراد گانا بجانا ہے۔ تو گانا بجانا حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمن والا کام، قرآن کے دشمن والا کام تھا، افسوس! آج مسلمان بھی اس کام کو کرتے ہیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ _____________________________________________ 22؎أخرجہ البیھقی فی سننہ الکبرٰی برقم (21536)، 223/10، کتاب الشھادات 21؎لقمٰن:6 22؎روح المعانی:67/21،لقمٰن(6)،داراحیاء التراث، بیروت