تجلیات الہیہ کی غیر فانی لذت |
ہم نوٹ : |
|
اعلان کرے کہ میرے شاہی محل کی تعمیر کے لیے چندہ لاؤ۔ ایک غریب آدمی اپنی جھونپڑی سے سڑا ہوا،گھن لگا ہوا بانس لے جائے اور کہے کہ حضور یہ بانس آپ کے شاہی محل کے لیے لایا ہوں اور بادشاہ اپنے کرم سے اسے قبول کرکے اس کو بہت سا انعام دے تو کیا وہ یہ سمجھے گا کہ میرا بانس تو بہت ہی قیمتی ہے۔وہ تو یہ کہے گا کہ وہاں تو میں نے دیکھا تھا کہ سونے چاندی اور سنگ مرمر کی عمارت تیار ہورہی ہےمگر پھر بھی بادشاہ نے میرا سڑا ہوا بانس لے کر اس کو قبول کرلیا اور اس کے عوض مجھ کو ایک لاکھ اشرفیاں دیں تو یہ محض ان کا کرم ہے۔ ہماری عبادت بھی سڑے ہوئے بانس سے کم نہیں ہے۔ ہمارا روزہ اور ہماری نماز اور ہماری تلاوت اللہ تعالیٰ کی عظمت اور کبریائی کے مقابلے میں کیا ہے؟ ہم نماز پڑھ رہے ہیں اور دل کہاں رہتا ہے؟کیا نماز میں حاضر رہتا ہے؟ نماز کی نیت باندھے ہوئے ہیں مگر دل کہیں اور ہے،کسی کا دل ڈبل روٹی خرید رہا ہے،کسی کا ناشتہ خرید رہا ہے اور کسی کا دل فیکٹری میں ہے۔ دوستو یہ کیسی عبادت ہے؟ارے اس عبادت پر عذاب نازل نہیں ہوتا یہ بھی اللہ کا احسان ہے۔ اس لیے اللہ کی عنایات پر،اللہ کی رحمتوں پریہ کہو کہ یااللہ! جتنی آپ کی ہم پر رحمتیں نازل ہوئی ہیں ان کا سبب صرف اور صرف آپ کی رحمت ہے، ہمارےعمل کو اس میں کوئی دخل نہیں، اور ہمیں عمل کی جو توفیق ہورہی ہے یہ بھی آپ کی عطاہے۔ حضرت والا کے قلب مبارک پر الہامِ علوم تو اَنْتَ کے بعد سُبْحَانَکَ کا حکم کیوں ہوا؟ یہ میں نے کہیں دیکھا نہیں ہے۔اسی طرح اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم اور بزرگوں کی دعاؤں کی برکت سے میرے قلب میں کل پرسوں بھی ایک مضمون آیا تھا، شب قدر ستائیسویں رات کے ایک ڈیڑھ بجے کا وقت تھا، میرے کچھ دوست اور احباب جمع تھے،اس وقت یہ مضمون ذہن میں آیا تھا۔اللہ تعالیٰ بزرگوں کی دعاؤں کی برکت سے کبھی کبھی دل میں ایسی بات ڈال دیتے ہیں جو میں کتابوں میں نہیں دیکھتا لیکن الحمدللہ میری گزارشات سے علماء بھی مست ہوجاتے ہیں،اہلِ علم حضرات بھی خوش ہوتے ہیں کہ عجیب و غریب مضمون ہے۔ اللہ تعالیٰ کی عجیب و غریب شان ہے اس