تجلیات الہیہ کی غیر فانی لذت |
ہم نوٹ : |
|
تو جیسے ہی بس اسٹاپ پر آدمی کسی عورت کو دیکھے وہیں اسے زمین میں دھنسادیں۔ بولو بھئی اللہ کواس کی طاقت ہے یا نہیں؟ لیکن حَلِیْمٌ کےمعنیٰ ہی یہ ہیں اَلَّذِیْ لَایَعْجِلُ بِالْعُقُوْبَۃِ کہ جوقدرتِ انتقام رکھتے ہوئےبھی سزا دینے میں جلدی نہ کرے۔اور کَرِیْمٌ کےمعنیٰ ہیں اَلَّذِیْ یُعْطِیْ بِغَیْرِ اسْتِحْقَاقٍ وَ بِدُوْنِ الْمَنَّۃِ 11؎ یعنی جو بغیر حق کے، بغیر قابلیت کے بخشش دے دیں۔ یہ ان کا احسان ہے۔ انعاماتِ الٰہیہ کی نسبت اپنے مجاہدات کی طرف کرنا ناشکری ہے اسی لیے حکیم الامّت نے بیان القرآن میں فرمایا ہے وَ قُلْتُ:بَعْضُ الْمُغْتَرِّیْنَ وَ مُعْجَبِیْنَ یُنْسِبُوْنَ کَمَالَاتِھِمْ اِلٰی مُجَاہَدَاتِھِمْ ھٰذَاعَیْنُ الْکُفْرَانِ کہ وہ صوفی و سالک بے وقوف ہے،دھوکے میں پڑا ہوا ہے، نہایت درجے عُجُب میں مبتلا ہے، کفرانِ نعمت اور ناشکری میں مبتلا ہے جو اپنے کمالات کو اپنے مجاہدات کی طرف منسوب کرتا ہے کہ میں نے اتنی نفلیں پڑھیں، اتنے روزے رکھے، بزرگوں کی اتنی صحبتیں اٹھائیں اس لیے ہمیں اللہ نے یہ انعام دیا۔ تو گویا اللہ کے انعامات کو اپنے مجاہدات کی طرف منسوب کرتا ہے،یہ ناشکری میں مبتلا ہے،اللہ تعالیٰ اس کی نعمت کو روک دیں گے، لَئِنْ شَکَرْتُمْ کے بعد جو لَاَزِیْدَنَّکُمْ 12؎ کا وعدہ ہے یہ اس ترقی سے محروم ہوجائے گا۔ اس لیےدوستوکبھی یہ نہ کہو کہ میں نے بڑے بڑے مجاہدے کیے ہیں، بڑی عبادتیں کی ہیں اس لیے اللہ نے مجھےیہ نعمت دی ہے۔ اللہ کی عطا کی نسبت اپنی عبادت اور اپنے مجاہدے کی طرف نہ کرو،یہ کہو کہ یا اللہ!آپ نے اپنے فضل سے دیا ہے، اگر ہمیں عبادت ومجاہدات کی توفیق ہوئی ہے تو وہ بھی آپ کا فضل ہے اور ہمیں جو انعامات مل رہے ہیں یہ بھی آپ کا فضل ہے۔ اللہ کے فضل کا سبب صرف ان کا فضل ہے، اللہ کی رحمت کا سبب صرف ان کی رحمت ہے ہمارا عمل نہیں ہے۔ میرے شیخ مولانا شاہ عبدالغنی صاحب رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے کہ اگر کوئی بادشاہ _____________________________________________ 11؎مرقاۃ المفاتیح: 371/3، باب التطوع، دارالکتب العلمیۃ، بیروت 12؎ابراہیم:7