تجلیات الہیہ کی غیر فانی لذت |
ہم نوٹ : |
|
لیے اللہ میاں نے ہمارے مزاج میں محبت کا مادہ رکھ دیا ہے تاکہ تمہاری تلوار اوپر ہی اوپر نہ چلے، مرغی کی طرح نہ ہو کہ ذرا سی دیر میں ذبح کردیا، دل کی گہرائی تک اِلٰہَ کی تلوار چلاؤ تاکہ تمہارا سارا دل غیر اللہ سے پاک ہوکر ہمارے جلووں کے قابل ہوجائے، پھر تمہیں اپنے دل میں اَنۡتَ ہی اَنۡتَ نظر آئے گا۔ جب کوہِ طور پر اللہ کی تجلی نازل ہوئی تو علماء نے لکھا ہے کہ وہ اللہ کی تجلی کو برداشت نہ کرسکا اس لیے ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا لیکن مولانا رومی فرماتے ہیں کہ وہ اس لیے ٹکڑے ٹکڑے ہوگیا کہ اللہ کا نور میرے اندر تک آجائے، اگر میں سخت رہوں گا، پھٹوں گا نہیں تو اللہ کے انوار میرے اوپر ہی اوپر رہیں گے، گویا کوہِ طور اللہ کا عاشق تھا، اس نے کہا کہ میں جلدی سے ٹکڑے ٹکڑے ہوجاؤں تاکہ اللہ کا نور میرے ذرّہ ذرّہ میں گھس جائے۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے عاشقوں کے لیےاسی لیے اتنا سخت مجاہدہ رکھا ہے کہ دل کی خواہش ٹکڑے ٹکڑے ہوجائے تاکہ دل کے ذرہ ذرہ میں اللہ کا نور داخل ہوجائے اسی لیے میرے دوستو میں کہتا ہوں ؎ عشق جس کا امام ہوتا ہے اس کا اونچا مقام ہوتا ہے ذوقِ عاشقی کی اہل اللہ کے ہاتھوں تربیت کی ضرورت دنیا کے عاشقوں کو لوگ بُرا کہتے ہیں لیکن میں محبت والوں سے چاہے وہ دنیاوی محبت ہی میں کیوں نہ گرفتار ہوں بہت محبت کرتا ہوں کیوں کہ ان کا مزاج جو انتہائی عاشقانہ ہے وہ بہت جلد درست ہوجائے گا، بس تھوڑی سی لائن بدلنی ہے، انجن میں اسٹیم تو ہے لیکن اُلٹے جارہے ہیں، منزل کی طرف نہیں جارہے ہیں لہٰذا ان کا ذوقِ عاشقی ٹھیک کرنا ہوگا۔ اور اگر کسی کے اندر اسٹیم ہی نہیں ہے، پیٹرول ہی نہیں ہے تو کیا کریں گے؟ کبھی دھکا دیں گے کبھی پیدل چلیں گے۔ لہٰذا جن کے دلوں میں عشق کا پیٹرول ہے وہ بڑے اچھے لوگ ہیں، مولویوں کو ان سے دوستی کرنی چاہیے، صرف ان کی ڈرائیونگ صحیح کردو کیوں کہ ماشاء اللہ ٹینکی تو پیٹرول سے