قلب عارف کی آہ و فغاں |
ہم نوٹ : |
|
نہیں ہوتا۔ لہٰذا اگلے دن نمازِ فجر کے بعد حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ مع احباب ایک بڑے قافلے کی صورت میں حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر تشریف لے گئے۔ لاہور میں حضرت کے میزبان جناب ڈاکٹر عبد المقیم صاحب، حاجی جہانگیر صاحب اور ان کے چھوٹے بھائی میاں شفیق صاحب کی رائے کے مطابق حضرت کی گاڑی صدر دروازےکےبجائے دائیں طرف کے عام دروازے سے لگائی گئی۔ اللہ تعالیٰ نے حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ کو باطنی انوارات کے ساتھ ساتھ ظاہری حسن و جمال اور وجاہت بھی خوب عطا فرمائی تھی،چہرۂ مبارک پر ذکر و عبادت، تقویٰ اور نسبت مع اللہ کے انوارات ہر ایک کو اپنی طرف کھینچ لیتے تھے، یہی وجہ تھی کہ جب حضرت والا رحمۃ اللہ علیہ مزار کے صحن میں پہنچے تو سنہرے حاشیے والے سیاہ جبہ میں ملبوس حضرت والا کا سرخ و سفید نورانی چہرہ جو دیکھتا خود بخود حضرت والا کی جانب کھنچا چلا آتا تاکہ زیارت و مصافحہ کا شرف حاصل کرسکے اور حضرت کے احباب سے پوچھتا کہ یہ پیر صاحب کون ہیں؟ کہاں سے تشریف لائے ہیں؟ سرکار کا نام کیا ہے؟ حضرت والا اللہ تعالیٰ کی محبت کی عظیم الشان کیفیتِ جذب لیے مخلوق سے بے نیاز حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی قبر مبارک پر گئے اور قرآنِ پاک کی چند سورتیں پڑھ کر ایصالِ ثواب کیا، پھر مزار سے متصل مسجد کی صف اوّل میں حاضر ہوکر نمازِ اشراق ادا کی اور دیر تک دعا مانگتے رہے۔ اس وقت حضرت والا پر ایسی عجیب و غریب کیفیت طاری تھی جو اس سے قبل کبھی دیکھنےمیں نہ آئی تھی۔ دعا سے فارغ ہوکر حضرت جب واپس جانے لگے تو لوگوں کا خیال تھا کہ حضرت والا گاڑی کی طرف جائیں گے لیکن حضرت والا جذب کے عجیب عالم میں تیزی سے قدم اٹھاتے ہوئے دوبارہ حضرت علی ہجویری کی قبر مبارک کے پاس چلے گئے۔اس دوران قبر کے اردگرد کافی مجمع اکٹھا ہوچکا تھا، لیکن حضرت والا کی کرامت تھی کہ جیسے جیسے حضرت آگے بڑھتے گئے مجمع پیچھے ہٹتا گیا اور راستہ خودبخود بنتا گیا یہاں تک کہ حضرت اور حضرت کے خدام بغیر کسی رکاوٹ کے مزار تک پہنچ گئے۔اس وقت حضرت والا کے چہرۂ مبارک پر انوارات کی جو بارش ہورہی تھی وہ دیدنی تھی۔ حضرت علی ہجویری رحمۃ اللہ علیہ کی قبر مبارک پر پہنچ کر حضرت والا دیر تک خاموش کھڑے رہے۔ حضرت والا جتنی دیر حضرت