قلب عارف کی آہ و فغاں |
ہم نوٹ : |
|
کررہا ہوں تو عمارت مت دیکھو، وہ عمارت افضل ہے یا اللہ کی محبت؟ پھر اُدھر کیوں دیکھ رہے تھے؟ افسوس ہے عشق و محبت کی داستان سے بے خبر ہو، عشقِ شیخ آسان نہیں ہے، مرشد کی تقریر کے وقت میں جو اِدھر اُدھر دیکھتا ہے تو سمجھ لو کہ اس کے عشقِ شیخ میں کچھ کمی ہے، عشق کا مقام تو یہ ہے ؎نظارہ ز جنبیدنِ مژگاں گلہ دارد نظارہ کو گلہ ہے کہ اے آنکھ تو جھپکتی کیوں ہے؟ میرے محبوب کو مسلسل مجھے دیکھنے دے۔ لہٰذا جب اللہ کی محبت کا بیان ہورہا ہو تو مرشد کی آنکھوں کو بھی دیکھو ، دردِ دل کوبھی دیکھو ، لب و لہجہ کو بھی دیکھو، حق تعالیٰ کی تجلیات کے نزول کو بھی دیکھو، اِدھر اُدھر دیکھ کر اپنے کو محروم نہ کرو۔ صحبتِ اہل اللہ کے لیے صرف کان کافی نہیں ہیں، اگرکان کافی ہوتے تو رؤیت کی شرط نہ ہوتی کیوں کہ صحابی نبی کے دیکھنے سے بنتا ہے،صحابی ہونے کے لیے ضروری ہے کہ یا تو صحابی نبی کو دیکھے یا نبی صحابی کو دیکھے۔اس لیے کوئی نبی نابینا پیدا نہیں کیا جاتا، اگر صحابی بھی نابینا ہو اور نبی بھی نابینا ہوں تو کوئی مسلمان صحابی کیسے بنے گا؟ بعض صحابہ نابینا تھے مگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بینائی نے ان کو صحابی بنادیا۔ اسی لیے کہتا ہوں کہ ایک دن اختر اس عالم میں نہیں ہوگا ، لہٰذا خوب غور سے میری باتیں سن لو، جب ہمارے بڑے نہیں رہے تو میں کیسے رہ سکتا ہوں؟ چاہے بادشاہ ہو یا غریب ہو، عالم ہو یا غیر عالم ہو سب کو ایک روز جانا ہے ؎یہ چمن یوں ہی رہے گا اور ہزاروں جانور اپنی اپنی بولیاں سب بول کے اڑجائیں گے میں اس ماحول میں اللہ تعالیٰ کی محبت کا وہ دردِ دل پیش کررہا ہوں جو اختر نے اپنے اکابر اور بزرگوں سے سیکھا ہے۔ لہٰذا جلدی جلدی کوشش کرکے اللہ تعالیٰ کو راضی کرلو۔ اور کچھ کام نہیں آئے گا سوائے جس سے اللہ راضی ہوگا۔ چاہے مدرسے کھولنے والا ہو یا عالم ہو یا مقرر ہو یا شیخ ہو، سارے اعمال کی بنیاد مالک کی رضا ہے اور وہی آخری منزل ہے، اگر اللہ تعالیٰ ہم سے خوش ہوجائیں تو بس کام بن گیا ؎میرا تو کام بن گیا میرا نصیب جاگ اُٹھا میری طرف کو دیکھ کے شیخ نے مسکرادیا