اصلی پیر کی پہچان |
ہم نوٹ : |
|
ایک مسواک پیش کر تا تھا، بس حضر ت خوش ہو جا تے تھے، کبھی میں نے استنجاء کے لیے مٹی کے ڈھیلے ہدیہ میں پیش کردیے، کبھی یہ کیا کہ اُس زمانے میں ایک آنے کی دو تین چھوٹی الائچی مل جا تی تھیں وہ پیش کردیں، میں نے سوچا کہ میں کیوں محروم رہوں؟ جیسے ایک بڑھیا نے جب یہ سنا کہ آج مصر کے بازار میں حضرت یوسف علیہ السلام فروخت ہورہے ہیں تو اس نے سوت کات کر دس بارہ آنے جمع کیے اور بازار کی طرف دوڑی کہ ہم بھی حضرت یوسف کو خریدیں گے، ایک شخص نے کہا کہ اے بڑھیا!یوسف علیہ السلام بڑے قیمتی ہیں،یہ جو تو نے سوت کات کر دس بارہ آنے جمع کیے ہیں اس کی تو وہاں کوئی حیثیت ہی نہیں ہے، اس نے کہا کہ میں جا نتی ہوں کہ یوسف علیہ السلام مجھے اس سستی قیمت میں نہیں ملیں گے، مصر کے بازار میں میری اس رقم کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی لیکن ؎ ہمی نم بس کہ داند ماہ رویم کہ من نیز از خریدارانِ اویم میرے لیے اتنا ہی کا فی ہے کہ میرا محبوب یو سف علیہ السلام یہ جا ن لے کہ میں بھی اُس کے خریداروں میں سے ہوں، ان کا اتنا علم ہو جانا ہی میرے لیے کا فی ہے، مجھے اس پر بھی خوشی ہے۔ دوستو،اللہ تعالیٰ کے راستے میں اللہ اتنا جان لے کہ ہم بھی ان کے عاشقوں میں سے ہیں، ہمارے لیے اتنا بھی بہت ہے۔ تو حضرت صدیق اکبر رضی اللہ عنہ نے جو تین با تیں فر مائیں ان کو اس لیے نقل کر دیا کہ ہمیں بھی اللہ والوں سے محبت کرنا آجا ئے، محبت کرنا بھی سیکھنا پڑتا ہے۔ میرے شیخ اوّل حضرت شاہ عبد الغنی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ میں حضرت حکیم الامت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کی خدمت میں بھینس کا اصلی گھی لے کر تھانہ بھون گیا ، حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ کو اللہ تعالیٰ نے وہ مقا م دیا تھا کہ بڑے بڑے نواب ان کی جوتیاں اُٹھاتے تھے، لیکن حضرت شاہ عبدالغنی رحمۃ اللہ علیہ فرما تے ہیں کہ جیسے ہی میں نے گھی پیش کیا، حضرت حکیم الامت رحمۃ اللہ علیہ نے میرا دل خوش کرنے کے لیے اپنے خادم سے فرمایا کہ میا ں نیاز! اس گھی کو گرم گرم کھچڑی میں ڈا ل کر میں خود کھاؤں گا، کسی اور کو نہیں دوں گا۔ حضرت تھانوی رحمۃ اللہ علیہ کے یہ کہنے کا مقصد صرف حضرت شاہ عبد الغنی رحمۃ اللہ علیہ کو خوش کرنا تھا، اللہ والے اپنے خادموں کو خوش بھی کر تے ہیں، سبحان اللہ کیا شان ہے اللہ والوں کی.....!