اصلی پیر کی پہچان |
ہم نوٹ : |
|
اللہ والوں کا باطن ساتوں آسمانوں کو اپنے اندر لیے ہو ئے ہے۔ لیکن ہم آپ اس کو سمجھ نہیں سکتے کیوں کہ ہم کو وہ مقام نصیب نہیں ہے جیسے ایک دیہاتی نے راجہ کو دیکھا تو گاؤں والوں سے پوچھا کہ یہ کون ہے؟ کہا کہ راجہ ہیں۔ اس نے کہا کہ ارے، پھر تو روز ہی دال پیتے ہو ں گے۔ اس ظا لم دیہاتی کو مہینہ بھر پیاز روٹی کھانے کو ملتی تھی، دا ل کہیں دو چار مہینہ میں ملتی تھی، تو انسان اپنی حیثیت کے مطا بق دوسروں کو قیاس کرتا ہے، عام آدمی اللہ والوں کو بھی اپنی حیثیت کے مطا بق سمجھتا ہے۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں ؎ متہم کم کُن بہ دُزدی شاہ را عیب کم گو بندۂ اللہ را اللہ والے شاہ ہیں ان کو چور نہ کہو، بادشاہ پر چوری کا الزام کیوں لگا تے ہو۔ اگر کوئی کہے کہ آج بادشاہ نے یا کمشنر نے یا گورنر نے ایک شخص کی جیب سے دس روپے نکا ل لیے تو کیا آپ یقین کریں گے؟تو اللہ والو ں کا مقام ہم کیا جا نیں ، آپ ہم ان کا مقام سمجھ بھی نہیں سکتے۔ مولانا رو می رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ اللہ والوں کے عیب کو زبان پر نہ لاؤ ، تم ان کے مقام کو نہیں سمجھ سکتے ۔مولانا رو می رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک ذرّے نے پہاڑ سے کہا کہ میں تجھے آزماؤں گا۔ پہاڑ نے ہنس کر کہا کہ اے ذرّے! جب تو مجھ کو اپنی آزمایش کے ترازو پر رکھے گا تو تیر ے ترازو کے پلڑے کے ٹکڑے ٹکڑے ہو جائیں گے۔ ایسے ہی جو اللہ والوں کو آزماتا ہے اس کی آزمایش کا ترازو پھٹ جا تا ہے۔جو ڈول کنویں میں گری ہوئی ہے وہ اس ڈول کی قدروقیمت کیاجانے جو کنویں سے باہر ہے، وہ دوسرے ڈولوں کو نکا لنے کے لیے کنویں سے باہر ہے، وہ ڈول خود کنویں میں نہیں گری ہوئی ہے۔ گاؤں دیہات میں جب ڈول کنویں میں گر جاتے ہیں تو لو گ ایک بڑے سے ڈول میں رسّی ڈا ل کر ان چھوٹی ڈولو ں کو پھنسا لیتے ہیں۔ ایسے ہی جن کا رابطہ اللہ تعالیٰ سے ہوتا ہے وہ دنیا کے کنویں میں دوسرے گرے ہو ئے جسموں کو نکالنے کے لیے ہمارے ساتھ اس دنیا میں رہتے ہیں۔ مولانا رومی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ یہ اللہ والے جو تمہا رے پاس رہتے ہیں تو ان کی نیت یہ ہوتی ہے کہ میں اپنے جسم کے قلب کے ڈول میں دوسرے لوگوں کو لگا کر اللہ تعا لیٰ تک لے اُڑوں۔