کرامت تقوی |
ہم نوٹ : |
|
گناہ سے بچنے کا انعامِ عظیم مولانا رومی رحمۃ اﷲ علیہ فرماتے ہیں کہ جب حضرت یوسف علیہ السلام کو قیدخانے میں ڈالا گیا تو جیسے ہی ان کا پہلا قدم قیدخانے میں داخل ہوا تو اﷲ تعالیٰ نے ان کے قلب پر اپنی محبت کا ایسا فیضان ڈال دیا کہ ؎ آں چنانش انس و مستی داد حق کہ نہ زنداں یادش آمد نےَ غسق اﷲ نے ایسی مستی،اپنی ایسی محبت ان کے قلب پر طاری فرمادی، جاری فرمادی، غالب فرمادی کہ نہ ان کو قید خانہ یاد رہا نہ قید خانہ کی تاریکی یاد رہی۔ پس ہم گناہ سے بچنے کی تکلیف اٹھا کر تو دیکھیں آج بھی وہ فیضانِ رحمت موجود ہے،خدا کے عاشقوں کے لیے قیامت تک یہ رحمت موجود ہے۔ گناہ سے بچنے کی تکلیف کو،تقویٰ کے غم کو اگر ہم اٹھالیں تو ہمارے دل پر بھی اﷲ تعالیٰ کی رحمت کی بارش ہوجائے گی۔پس گناہ چھوڑنے میں جو تکلیف ہوتی ہے اس پر صبر کرنا یہ انبیاء علیہم السلام کا اور اولیائے کرام کا خاص حصہ ہے۔ اﷲ کی نافرمانی سے بچنے کا غم اٹھانا یہ صرف غذائے انبیاء واولیاء ہے۔ عبادت تو گناہ گار اور فاسق بھی کرلیتا ہے لیکن گناہ سے بچنے کاغم، تقویٰ کا غم صرف خاصانِ خدا اٹھاتے ہیں۔ یہ غذائے خاصانِ خدا ہے، غذائے انبیاء و اولیاء ہے۔ یہ غذا گناہ گار کو نصیب نہیں، اگر گناہ گار کو نصیب ہو جائے اور وہ گناہ سے بچنے کا غم اٹھانے لگے تو فاسق نہ رہے گا ولی اﷲ ہوجائے گا۔ دنیا میں کوئی شخص ولی اﷲ نہیں ہوا جس نے گناہ چھوڑنے کی تکلیف نہیں اٹھائی، اِنۡ اَوۡلِیَآؤُہٗۤ اِلَّا الۡمُتَّقُوۡنَ 26؎ اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ جو گناہ چھوڑ دیتے ہیں ان کو ہم اپنا ولی بنالیتے ہیں۔ گناہوں پر تلخ زندگی کی وعید اب فیصلہ کرلیں کہ گناہ اچھی چیز ہے یا اﷲ کا ولی بننا، اﷲ کی دوستی بہتر ہے یا _____________________________________________ 26؎الانفال:34