کرامت تقوی |
ہم نوٹ : |
|
اﷲ تعالیٰ کے مزاج شناس ہو تے ہیں۔ ان سے بڑھ کر خدا کاعارف کوئی ہو ہی نہیں سکتا، لہٰذا وہ اپنی امت کو مانگنا سکھاتے ہیں کہ ایسے کہو اَکْرِمْنِیْ بِالتَّقْوٰی یااﷲ! ہمیں تقویٰ کی تو فیق سے عزت عطا فرما کیوں کہ ہر نا فرمانی سے ہم ذلیل ہو تے ہیں، مخلوق کی نظر میں ذلیل ہو تے ہیں، فرشتوں کی نظر میں ذلیل ہو تے ہیں، خدا کی نظر میں ذلیل ہو تے ہیں اور ایسے لوگوں کو کا فر بھی ذلیل سمجھتا ہے۔ ایمان کے بعد عافیت سب سے بڑی دولت ہے اور آگے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم دعا مانگتے ہیں: وَجَمِّلْنِیْ بِالْعَافِیَۃِ اے اللہ! مجھے جمال عطا فرما عافیت کے ذریعے۔ دنیا میں جو کچھ ہونا ہے وہ تو ہو کر رہے گالیکن ہمارا فائدہ اسی میں ہے کہ ایمان کے ساتھ اﷲ کو راضی کر کے مریں اور اﷲ تعالیٰ سے عافیت مانگیں۔ ایمان کے بعد اگر کوئی بڑی دولت ہے تو وہ عافیت ہے۔ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے حضرت صدیقِ اکبر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے ارشاد فر مایا تھا : سَلُوا اللہَ الْمُعَافَاۃَ فَاِنَّہٗ لَمْ یُؤْتَ اَحَدٌ بَعْدَ الْیَقِیْنِ خَیْرًا مِّنَ الْمُعَافَاۃِ 21؎یعنی ایمان کے بعد عافیت سے بڑھ کر کوئی دولت نہیں۔ عافیت کے معنیٰ ہیں کہ ہم سلامت رہیں ہر مصیبت سے یعنی ہر مصیبت سے محفوظ رہیں اور ہر معصیت سے بچے رہیں، اگر ہمیں نہ نزلہ ہو نہ بخار، ایئر کنڈیشن میں شامی کباب اڑائیں مگر کسی گناہ میں مبتلاہوں تو یہ عافیت نہیں ہے۔ عافیت میں وہ شخص ہے جو ہر مصیبت سے اور ہر معصیت سے بچے۔ سعدی شیرازی رحمۃ اللہ علیہ نے لکھا ہے کہ دریا کے کنارے ایک بزرگ کو بخار چڑھا ہوا تھا ایک شخص نے کہا کہ حضرت آپ کے تعویذوں اور جھاڑ پھونک سے تو سب کے بخار اچھے ہو رہے ہیں اور آپ خود بخار میں مبتلا ہیں تو ہنس کر فرمایا کہ’’ الحمد ﷲ کہ در مصیبت گرفتارم نہ کہ در معصیت‘‘ یعنی مصیبت میں تو مبتلا ہوں لیکن الحمد ﷲ کسی گناہ میں مبتلا نہیں ہوں۔ _____________________________________________ 21؎سنن ابن ماجہ:409 ، باب الدعاء بالعفو والعافیۃ،المکتبۃ الرحمانیۃ