کرامت تقوی |
ہم نوٹ : |
|
اہلِ علم وہ لوگ ہیں جو اللہ سے ڈرتے ہیں یعنی اپنے علم پر عمل کرتے ہیں۔ بے علم آدمی کے پاس اگر چہ کتنے ہی خزانے ہوں وہ مال دار نہیں ہے بلکہ وہ تو مفلس ہے، حقیقی مال دار وہ آدمی ہے جو علم کی دولت سے مالامال ہو۔ یہ ان نعمتوں میں سے ہے جو انبیا ء علیہم السلام کو دی گئیں اَلَمۡ نَشۡرَحۡ لَکَ صَدۡرَکَ کی تفسیر ہے اَیْ بِالْحِلْمِ وَالْعِلْمِ یعنی کیا ہم نے آپ کا سینہ نہیں کھول دیا حلم سے اور علم سے۔ انبیاء علیہم السلام کو علم کی دولت سے نوازاگیا اور حلم سے مزین کیا گیا۔ زینتِ حلم ہر شخص چاہتا ہے کہ میری زندگی میں زینت رہے اور خو بصورت زندگی عطا ہو۔ ایک زینت یہ ہے کہ بدن کو بنا سنوار کر رکھے لیکن زندگی کا مزین ہونا ایک دو سری چیز ہے ۔ حضرت بلال رضی اﷲ تعالیٰ عنہ کی زندگی کیسی تھی؟ مزین تھی یا نہیں؟ حالاں کہ رنگ کے کالے تھے اور ظاہری بناؤ سنگھار بھی نہیں تھالیکن رنگ سے کیا ہوتا ہے؟ کالے تھیلے میں اگر ایک کر وڑ کا موتی ہو تو اُس سفید تھیلے سے افضل ہے جس میں بلی کا گو ہے۔ چمڑے سے کیا ہوتاہے، یہ دیکھیے اندر کیا ہے۔ حضرت بلا ل رضی اﷲ تعالیٰ عنہ حبشی اور کالے تھےاور حضرت عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہ گورے تھے، قر یشِ مکہ سے تھے، لیکن کہتے تھے یَاسَیِّدِیْ بِلَا ل اے میرے سر دار بلال ! تو انسان زینت بھی چاہتا ہے کہ اس کی زندگی مُزیّن ہو، نقش و نگار والی ہو۔ یہ آج کل موزیک کا فرش وغیرہ کیا ہے؟ زینت ہی تو ہے اور اس سے مضبوطی بھی حاصل ہوتی ہے۔ ان نعمتوں کا ہر انسان عقلی طور پر اور طبعی طور پر طالب ہو تا ہے کہ مجھے عزت والی زندگی ملے۔ میری زندگی جمال اور زینت والی ہو۔ اب یہ کیسے ملے گی؟اس کے لیے حضور صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے آگے دعا مانگی وَزَیِّنِّیْ بِالْحِلْمِ اور میری زندگی زینت والی بنا دے حلم و برداشت کے ذریعے،یہ نہیں کہ ذرا سی کوئی نا گوا ر بات ہو ئی تو غصے سے کانپنے لگے اور اول فول بکنے لگے۔ ظاہر تو اﷲ والوں جیسا ہے، ہر وقت رونا اورگریہ و زاری، تقریر میں نہایت اعلیٰ اور عارفانہ مضامین بیان کرنا، لیکن نفس کو اگر ذرا بھی کوئی بات ناگوار معلوم ہوئی تو بالکل حدود کی رعایت نہیں کرتے کہ میرا شیخ کون ہے یا میں کس کے سامنے ہوں اور میں کہاں رہ رہا ہوں۔