کرامت تقوی |
ہم نوٹ : |
|
اِنَّ اِبۡرٰہِیۡمَ لَحَلِیۡمٌ اَوَّاہٌ مُّنِیۡبٌ 19 ؎ کا تر جمہ کر تے ہیں’’واقعی ابراہیم (علیہ السلام) بڑے حلیم الطبع، رحیم المزاج، رقیق القلب تھے۔‘‘ حضرت تھانوی رحمۃ اﷲ علیہ نے حلیم کا کیسا عمدہ تر جمہ فرمایا ہے۔ ہر حلیم الطبع آدمی میں شانِ محبوبیت ہو تی ہے۔ لوگ اس سے محبت کرتے ہیں اس کی زینتِ با طنی کے سبب۔ اسی لیے حضور صلی اﷲ علیہ وسلم ہمیں مانگنا سِکھارہے ہیں کہ اے اﷲ! مجھے حلم سے زینت عطا فرما۔ تو حلم کے ذریعے اپنی زندگی کو مزین کیجیے لیکن سب سے بہترین زندگی کس چیز سے ملے گی؟ تقویٰ سے۔ کرامتِ تقویٰ تقویٰ کے بہت سارے انعامات ہیں مثلاً انسان کا دل چاہتا ہے کہ دنیا میں عزت سے رہے۔ بتائیے کیا کوئی چاہتا ہے کہ وہ ذلیل ہو جائے؟ کوئی ایسا ہو تو ذرا مجھ کو بتائے۔ سب چاہتے ہیں کہ ہم عزت سے رہیں۔ سب سے زیادہ مکرم اورمعزز کون ہے؟ جو متقی ہے، چاہے کسی کے پاس لاکھوں کی بلڈنگ، ایئرکنڈیشن اور کروڑوں کا مال ہولیکن آدمی کی عزت مال سے نہیں ہوتی، عزت تو تقویٰ سے حاصل ہوتی ہے۔ جو اﷲ تعالیٰ کو زیادہ راضی رکھتا ہے اور گناہوں سے بچتا ہے ،اس کی زندگی عزت والی ہے۔ کوئی باپ یہ نہیں چاہتا کہ میرے بیٹے دنیا میں ذلیل ہوں تو اﷲتعالیٰ اگر یہ چاہتے ہیں کہ میرے بندے عزت سے رہیں تو بتا ؤ یہ اﷲ تعالیٰ کی رحمت ہے یا ظلم ہے؟ بعضے نالا ئق یہ خیا ل کر تے ہیں کہ کاش! شر یعت کی یہ پا بندیاں نہ ہوتیں، یہ احکام نہ ہوتے تو ہم بھی نفس کے حرام مزے خوب لوٹتے، چاہے زندگی کتے اور سور سے بھی بد تر ہو جاتی۔ بعض لوگوں کے دل میں شیطان ایسے ہی وسوسے ڈالتا ہے۔ یاد رکھیے کہ یہ حق تعالیٰ کی رحمت کو ظلم سمجھنا ہے ۔ یہ اﷲ تعالیٰ کا احسان ہے کہ جس نے بُری اور ذلیل چیزوں کو ہم پر حرام کر دیا تا کہ ہمار ے بندے عزت کے ساتھ رہیں۔ اب آ پ خود سوچئے کہ کوئی تسبیح لیے ہوئے داڑھی رکھے ہوئے کسی عورت کو دیکھ رہا ہو تو جب کسی کی نظر اس داڑھی والے پر پڑ ے گی چاہے وہ خود بے نمازی ہو، چاہے کتنا ہی _____________________________________________ 19؎ھود:75