کرامت تقوی |
ہم نوٹ : |
|
کھڑی ہو جائیں تو ان کو وسوسہ تک نہیں آ ئے گا۔ وہ گناہوں سے بچنے کا غم جانتے بھی نہیں کہ یہ ہے کیا چیز۔ حضرت مولانا شاہ محمد احمد صاحب جو بزرگ ہیں اﷲ والے ہیں ان کا شعر ہے ؎ کبھی طاعتوں کا سرور ہے کبھی اعترافِ قصور ہے ہے مَلک کو جس کی نہیں خبر وہ حضور میرا حضور ہے یعنی فرشتے بھی اﷲ والوں کے قرب کو نہیں سمجھ سکتے کیوں کہ ان کو یک طر فہ قرب حاصل ہے، ان کو قربِ عبادت تو حاصل ہے، قربِ ندا مت حاصل نہیں ہے کیوں کہ ان سے خطا ہوتی ہی نہیں۔ لہٰذا جب خطا ہو تی ہی نہیں تو ندامت اور رونا اور گر یہ و زاری اور معافی و تو بہ وغیرہ یہ سب ان کو کہاں سے حاصل ہوگا؟ اﷲ تعالیٰ نے ہم کو یہ نعمتِ مستزاد عطا فرمائی ہے، یعنی اضافی نعمت عطا فرمائی ہے، اس کا نام نعمتِ مستزاد ہے کہ اﷲ تعالیٰ کی عبادت کا مزہ بھی آ رہا ہے اور گناہوں سے بچنے کی کشمکش اور مقابلے بھی چل رہے ہیں اور اگر کبھی لغزش ہو گئی تو ندامت اور آہ و زاری بھی جا ری ہے۔ یہ آ ہ و زاری فر شتوں کو حاصل نہیں ہے، کوئی فرشتہ رونا جانتا ہی نہیں وہ آہ و زاری کیا کر ے گا۔ جب اس سے گناہ ہی نہیں ہوتا تو کس بات سے استغفار کر ے گا؟ ندامت کس بات سے ہو گی۔ ہم اﷲ تعالیٰ کے دائمی فقیر ہیں تو دو ستو! یہ عرض کر رہا تھا کہ اﷲ تعالیٰ سے مانگنے سے کام چلے گا۔ ہم لوگ اﷲ تعالیٰ کے بِھک منگے ہیں۔ اﷲ تعالیٰ نے ہماری فقیری کو رجسٹرڈ کیا ہے: یٰۤاَیُّہَا النَّاسُ اَنۡتُمُ الۡفُقَرَآءُ اِلَی اللہِ 20؎اے لو گو ! تم ہمارے فقیر ہو۔ چوں کہ ہم اﷲ تعالیٰ کے فقیر ہیں لہٰذا ہمیں مانگنے کا حکم بھی دیا گیا ہے اور ما نگنا بھی سکھایا گیا ہے کہ اﷲ سے اپنی ہر حاجت طلب کرو، اور مانگنا کس نے سکھایا ہے؟ حضور صلی اﷲ علیہ وسلم نے۔ جیسے ماں بچوں کو ابا سے مانگنا سکھاتی ہے، کیوں کہ ماں شوہر کی مزاج شناس ہوتی ہے۔ نادان بچہ کیا جانے کہ ابا سے کیسے مانگا جا تا ہے۔ نبی اور رسول _____________________________________________ 20؎فاطر:15