کرامت تقوی |
ہم نوٹ : |
|
دوسری عورت سے کہا، اری بہن! ایک مُلّا مجھ کو دیکھتا جا رہا تھا۔ دیکھا آپ نے! حالاں کہ مسٹر ان دو نوں عورتوں کو دیکھ لے تو اس کو کچھ نہیں کہیں گی۔ مسٹر کی سب خطا معاف اور مُلّاکی ایک خطا بھی معاف نہیں کی۔ بس مُلّا کو اِدھر اُدھر نہیں دیکھنا چاہیے۔ مولوی کو اﷲ والا رہنا چاہیے۔ اس لیے دو ستو ! اﷲ تعالیٰ سے تقویٰ ما نگو کیوں کہ زندگی کے دن اب ختم ہو تے جارہے ہیں، موت کے ایمرجنسی ویزے آ رہے ہیں، کچھ پتا نہیں کس کا کس وقت میں خا تمہ ہو نے والا ہے، اگر خدا نخواستہ گناہوں کے خیالات پکانے کے زمانے میں مو ت آ گئی تو قلب کے لحاظ سے آپ اﷲ تعالیٰ کے یہاں مجرم ہوں گے اور ہو سکتا ہے کہ آخری وقت میں زبان سے کلمہ نکلنے کے بجائے دل میں جن کے خیالات ہیں وہی منہ سے نکل جائیں کیوں کہ موت کے وقت وہی منہ سے نکلتا ہے جو دل میں ہوتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ کی محبت کو غالب رکھنا فرض ہے جب میں ناظم آباد نمبر۴ میں تھا تو ایک وکیل کا انتقال ہو نے لگا، اس کے بیٹوں نے کہا کہ بابا کلمہ پڑھ لو تو اس نے کہا کہ ہائی کو رٹ کی فلاں فلاں فائل لاؤ، مجھے ہائی کورٹ میں کل مقد مہ لڑنا ہے۔ اسی پر اس کی جان نکل گئی۔ تو جو دل میں ہو تا ہے وہی زبان سے نکلتا ہے۔ اس لیے عرض کرتا ہوں کہ اﷲ تعالیٰ کی محبت اپنے دل پر غالب رکھنا فرض ہے۔ اِس بات کی کوشش کیجیے اور اِس کو اﷲ تعالیٰ سے مانگیے۔ مولانا جلال الدین رومی رحمۃ اﷲ علیہ کی ایک نصیحت جب کوئی مرنے والوں پر مرتا ہے تو اس کا کیا حال ہوتا ہے؟ ایک مردہ تووہ خود ہے، دوسرے کسی مرنے والے سے بھی دل لگا لے تو ڈبل مردہ ہو جائے گا۔ اﷲ والوں سے پوچھ کر جتنا ہو سکے صبح شام ذکر کریں۔ اﷲ کا نام لینے کے لیے کسی سے بیعت ہونے کی، مرید ہونے کی بھی قید نہیں، آپ اﷲ اﷲ کیجیے پھر آپ کا جہاں دل چاہے وہاں جڑجائیے اور وہاں سے اصلاح کرواتے رہیے، جب موقع ملے اﷲ والوں کے پاس بیٹھنے کا معمول بنا لیجیے، کبھی ان کے پاس ایک آدھ رات رہ بھی جائیے، چاہے سال میں ایک رات ہی سہی۔ مولانا رومی کی نصیحت مان لیجیے ؎