کرامت تقوی |
ہم نوٹ : |
|
آواز بھی تیز اور اونچی نکالنا شروع کر دیتے ہیں ۔ کیا یہی اﷲ والی زندگی ہے؟زینت والی زندگی کے لیے حلیم الطبع ہونا چاہیے۔ حَلِیْم کے معنیٰ حَلِیْم کے معنیٰ کیا ہیں؟ جو برداشت کے ساتھ رہے اور حسنِ اخلاق کو اپنے او پر غالب رکھے، غصے میں پاگل نہ ہو جائے۔ اور جو غصے میں بالکل نہ سوچے کہ میں کیا ہوں، کہاں بات کر رہا ہوں، کس سے بات کر رہا ہوں، کس ماحول میں ہوں تو اس کو ان باتوں سے زینت والی زندگی کہاں سے ملے گی؟ ایسی زندگی تو حلم ہی سے ملے گی یعنی غصے سے مغلوب نہ ہو۔ انسان میں حلم ہو، حلیم الطبع ہویعنی نا گوار بات ہو تو اسے بر داشت کرے۔ اپنے بزرگوں سے پوچھو کہ ہمیں کیا کر نا چاہیے، خود انتقام لینا مت شروع کر دو، بڑ بڑ کر کے اُلو کی طرح باتیں مت کر و، بزرگوں کو، اپنے مربّیوں کو اطلا ع کرو کہ آج ہمیں ایسا نامناسب اور ناخو شگوار لفظ فلاں نے کہہ دیا، میں بدلہ کتنا لے سکتا ہوں؟ قرآنِ پا ک کی روشنی میں انتقام لینے کی حدود آپ کو معلوم ہے کہ سیدنا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم کے سگے چچا سید الشہدا ء حضرت حمزہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ جو حضورصلی اﷲ علیہ وسلم سے عمر میں چار سال زیادہ تھے، ان کو جنگِ احد میں کس طرح شہید کیا گیا؟ ان کو شہید کرنے کے بعد ان کا کلیجہ تک نکال کر چبا لیا گیا،کان کاٹ لیے گئے، آپ کی لاش کو مثلہ کر دیا گیا، مُثلہ چہرہ مسخ کر دینے کو کہتے ہیں۔ سیدنا محمد رسول اﷲ صلی اﷲ علیہ وسلم نے جب اپنے چچا کا یہ حال دیکھا تو آپ صلی اﷲ علیہ وسلم کو اتنا صدمہ ہوا کہ آپ صلی اﷲ علیہ وسلم نے فرمایا خدا کی قسم! میں ستّر کا فروں سے ایسے ہی بدلہ لوں گا۔ رحمۃللعالمین صلی اﷲ علیہ وسلم کا یہ فرمانا انتہائی صدمے کی نشاندہی کرتا ہے، لہٰذا اسی وقت آیت نازل ہوئی: وَ اِنۡ عَاقَبۡتُمۡ فَعَاقِبُوۡا بِمِثۡلِ مَا عُوۡقِبۡتُمۡ بِہٖ اگر آپ کو تکلیف دی گئی ہے تو آپ اتنا ہی بدلہ لے سکتے ہیں جتنا آپ کے اوپر تکلیف آ ئی ہے۔