کرامت تقوی |
ہم نوٹ : |
|
اﷲ کے نبی سیدنا یوسف علیہ السلام کے جواب سے ہم سب سبق لے لیں کہ کیسا پیارا جواب دیا اور اعلان کیا اور قیامت تک کے لیے ان کا یہ اعلان اہلِ عشق و محبت کے لیے تازیانہ ہے۔ فرمایا کہ رَبِّ السِّجۡنُ اَحَبُّ اِلَیَّ مِمَّا یَدۡعُوۡنَنِیۡۤ اِلَیۡہِ 25؎اے ہمارے پالنے والے! دیکھیے:یہاں رب کااستعمال کیا کیوں کہ پالنے والے کا حق ہوتا ہے۔ یہ ہے قرآنِ پاک کی بلاغت۔ یہاں اﷲ نہیں فرمایا، مالک نہیں فرمایا، خالق نہیں فرمایا، ننانوے ناموں کو چھوڑ کر صرف رب استعمال کیا کہ اے میرے رب! آپ ہمیں پالتے ہیں، آپ نے ہمیں آنکھیں دیں اور آنکھوں میں روشنی دی، کان دیے اور کانوں میں سننے کی طاقت دی، زبان دی اور زبان میں بولنے کی طاقت دی، کتنے لوگ اندھے ہیں، کتنے بہرے ہیں، کتنے گونگے ہیں، آپ نے ہمیں یہ طاقتیں دیں،آپ ہمارے جسم کے، دل کے، اور روح کے پالنے والے ہیں تو اے میرے پالنے والے! آپ کی نافرمانی سے بچنے کی سزا میں مصر کے بادشاہ کی بیوی مجھے قیدخانہ میں ڈلوانے کی دھمکی دے رہی ہے۔ بادشاہ کی بیوی ہے جس کی نافرمانی سے قید خانہ یقینی ہے لیکن رَبِّ السِّجۡنُ اَحَبُّ اِلَیَّ اے میرے پالنے والے! اگر آپ کی نافرمانی سے بچنے میں اور آپ کو خوش کرنے سے، گناہ نہ کرنے سے اگر مجھے قیدخانہ ملتا ہے تو یہ قیدخانہ مجھے صرف محبوب ہی نہیں، محبوب سے بھی اونچا، حبیب سے بھی اونچا یعنی احب ہے،مجھے وہ قیدخانہ نہایت پیارا ہے جس سے آپ کی رضا اور خوشنودی حاصل ہوجائے،آپ خوش ہوجائیں۔ اگر آپ خوش ہیں تو ؎خوشا حوادثِ پیہم خوشا یہ اشک رواں جو غم کے ساتھ ہو تم بھی تو غم کا کیا غم ہے اور یہ آیت رَبِّ السِّجۡنُ اَحَبُّ اِلَیَّ …الٰخ اﷲتعالیٰ کی شانِ محبوبیت کی دلیل ہے کہ اﷲ تعالیٰ اتنے محبوب ہیں، اتنے پیارے ہیں کہ اُن کی راہ کے قیدخانے بھی اَحب ہوتے ہیں تو ان کی راہ کے گلستاں کیسے ہوں گے۔ _____________________________________________ 25؎یوسف:33