کرامت تقوی |
ہم نوٹ : |
|
شیخ بنانے کا معیار مولانا روم مثنوی میں فرماتے ہیں کہ اس زمانے میں بھی نائبِ بابائے نوح یعنی اﷲ والے موجود ہیں، ان کی کشتیاں موجود ہیں ؎ھے بیا در کشتیٔ بابا نشیں مولانارومی فرماتے ہیں اے بھائیو! بابا کی کشتی میں بیٹھ جاؤ۔یہ بابا کون ہیں ؟ یہ وہ بابا ہیں کہ جوشریعت اور سنت پر چلتے ہیں اور انہوں نے بھی کسی کواپنا بابا، اپنا مربی بنایا تھا، یہ تربیت یافتہ لوگ ہیں۔ لہٰذا ایسے شخص کو بابا نہ سمجھ لینا جس کا کوئی اگلا بابا نہ ہو لَا تَاْخُذُوْہُ بَابَا مَنْ لَّا بَابَا لَہٗ جیسےبعض لوگ خود ہی مربیّ بنے ہوئے ہیں حالاں کہ کسی مربی کے ہاتھوں مربّہ نہیں بنے، اپنی تربیت نہیں کرائی۔ جو مربّہ نہ ہو وہ مربی نہیں ہو سکتا تو سب سے پہلا نسخہ دین کی سلامتی، دین کی سمجھ اور دین پر قائم رہنے کا یہ ہے کہ بزرگوں کے پاس آنا جانا رکھیے۔ اب آپ کہیں گے کہ کیا دلیل ہے کہ کون بزرگ ہے بس آپ کے لیے یہ دلیل کافی ہونی چاہیے کہ اس نے کسی اﷲ والے کی صحبت اٹھائی ہو۔ جیسے کسی حکیم کے مستند ہونے کے لیے اتنی ہی دلیل کافی ہے کہ یہ شخص حکیم محمد اجمل خان دہلوی کا صحبت یافتہ ہے، بس اس سے علاج کراؤ۔ بس اتنا دیکھیے کہ جو تمہیں دین سکھا رہا ہے اس نے بزرگوں کی صحبت اٹھائی ہے یا نہیں ؟پھر یہ دیکھیے کہ جو اس کے پاس آنے جانے والے ہیں ان کے اند ر کیا تبدیلی ہو رہی ہے، جو لوگ اس کے پاس آ تے جاتے ہیں اس کے مطب میں روحانی شفا ہورہی ہے یا نہیں، اس کے پاس آنے والوں کے دل میں اﷲ کی محبت بڑھ رہی ہے، گناہ چھوٹ رہے ہیں اور یقین ایمان میں ترقی ہورہی ہے یا نہیں؟ اس کے پاس آنے جانے والوں سے پوچھ لو کہ تم لوگ جو یہاں آتے ہو تو تمہیں کیا ملا؟ اپنی دس سال پہلے والی زندگی بتاؤ اور اب بتاؤ، کچھ فرق محسوس ہوا ؟ صحبتِ اہل اﷲ کا مزہ حکیم الامت رحمۃ الله علیهفرماتے ہیں کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہمیں تو کچھ فائدہ محسوس نہیں ہوا۔ فرمایا کہ فائدہ محسوس ہونے سے اپنی دس سال پہلے کی زندگی کو سوچو ، پانچ سال پہلے کی