آداب محبت |
ہم نوٹ : |
|
مولانامسیح اﷲ خان صاحب نے یہ بات فرمائی کہ شیطان سے دو سبق لے لو۔ شیطان مردود ہوکر دو سبق دے گیا، اس کےمعنیٰ یہ نہیں ہیں کہ اس نے کوئی اچھا کام کیا، جیسے سنکھیا کھا کے کوئی مرجائے تو آدمی کہتا ہے کہ خدا بچائے! میں سنکھیا ہرگز نہیں کھاؤں گا اور نہ اپنے بچوں کو کھانے دوں گا۔اس کے معنیٰ یہ نہیں کہ سنکھیا کی تعریف ہورہی ہے۔ تو شیطان کی مردودیت سے دوطبقوں کو سبق ملا، ایک عابدوں کو دوسرے عالموں کو۔ عبادت کرنے والوں کو یہ سبق ملا کہ دیکھو میں نے لاکھوں سال عبادت کی، مگر میری تربیت نہ ہونے سے اور اﷲ والوں کی صحبت نہ اٹھانے سے تکبر کا مرض نہیں گیا، بلکہ عبادت کرنے سے تکبر کا نشہ اور بڑھ گیا۔ ایک صاحب کو حکیم الامت تھانوی نور اﷲ مرقدہٗ نے اﷲاﷲ کا ذکر بتایا، جب انہوں نے اﷲاﷲ شروع کیا تو مزاج میں اور بڑائی آگئی، جیسے کسی کو قے ہورہی ہو، ملیریا ہو، پیٹ میں صفرا ہو،تو وہ حلوہ یا انڈا یا دودھ یامچھلی جوکھاتا ہے سب فاسد مادّہ بن جاتا ہے۔ اگر پیٹ میں انفیکشن ہے، زہر یلا مادّہ ہے، تو جو دودھ وغیرہ پیے گا سب زہر بن جاتا ہے، تو چوں کہ اس شخص کے مزاج میں پہلے ہی سے تکبر تھا، لہٰذا جب حکیم الامت تھانوی نوراﷲ مرقدہٗ نے اس کو ذکر بتایا تو عبادت کرنے سے اس کے مزاج میں اور اکڑ آگئی۔اس نے کہا: اب تو میں اﷲاﷲ بھی کرتا ہو ں، لہٰذا اب سب کو ڈانٹنا شروع کر دیا کہ تم نے یہاں کیوں نماز پڑھ لی؟یہاں لوٹا کیوں رکھ دیا؟یہاں اپنی تسبیح کیوں ٹانگ دی؟ اور تم زور سے کیوں ذکر کر رہے ہو؟ تم کیوں رو رہے ہو؟ بغیر شیخ کے اصلاح نہیں ہوتی ایک دن حکیم الامت نے دیکھ لیا اور بلا کر فرمایا کہ یہاں آئیے۔آپ یہاں مریض ہیں یا حکیم ہیں؟یہ اشرف علی یہاں کس لیے بیٹھا ہوا ہے؟ مریض کی حیثیت سے آپ کو خاموش رہنا چاہیے تھا، اپنے کام سے کام رکھنا چاہیے تھا، میراکیپسول کھاتے اور آرام سے بیٹھتے،یہ تم نے تھانہ بھون میں حکومت شروع کردی، میں یہاں کس لیے بیٹھا ہوں، یہ لوگ تمہارے پاس آئے ہیں یا میرے پاس آئے ہیں؟ میری ڈانٹ سننے کے لیے آئے ہیں یا تمہاری پکڑ دھکڑ سننے کے لیے آئے ہیں؟ معلوم ہوا کہ تمہارے مزاج میں تکبر ہے، تم اس قابل نہیں ہو کہ تمہیں عمدہ غذا کھلائی جائے، ابھی تمہیں جلاب دینا پڑے گا، تمہارے پیٹ سے