آداب محبت |
ہم نوٹ : |
|
کاٹتا ہوں پھر شہر جاکر گھاس بیچتا ہوں اور جو پیسے ملتے ہیں اس سے اپنا پیٹ بھرتا ہوں، اگر آپ میرے لیے کھانے کو کچھ بھیج دیا کریں، تو اتنا وقت بچے گا اور اتنی دیر مزید آپ کی عبادت کرلیا کروں گا۔آپ کے لیے کیا مشکل ہے؟ اﷲ تعالیٰ نے منظور کرلیا اور فرمایا: اپنا کھرپا جس سے گھاس کاٹی جاتی ہے اور لکڑی کی جھولی جس میں گھاس رکھتے ہیں دونوں یہیں رکھ دے اور دس سال سے اس کو چٹنی روٹی غیب سے ملتی رہی۔ لیکن جب سلطنتِ بلخ چھوڑ کر فقیری کے لباس میں سلطانِ بلخ اسی جنگل میں آئے اور ان کے لیے جنت سے خوشبودار بریانی آئی، تب اس مجذوب کی بے وقوفی کھلی، اس نے آسمان کی طرف دیکھا اور کہا کہ اﷲ میاں! کیا آپ کے بھی دو آنکھیں ہیں، میں یہاں دس سال سے آپ کی عبادت کررہا ہوں اور مجھے دس سال سے چٹنی روٹی مل رہی ہے اوریہ آدمی کل جنگل میں آیا اور آپ نے اس کو اتنی ترقی دی کہ پہلے ہی دن ایم ایس سی کی ڈگری دے دی اور اس کو بریانی کی پی ایچ ڈی کھلا رہے ہیں!حالاں کہ ؎ وہ عاشق کل ہوا میں ہوں تیر ادیوانہ برسوں سے فوراً آسمان سے آواز آئی او بے ادب! تیرا وہ کھرپا اور جھولی میں نے اِسی دن کے لیے رکھوایا تھا، چوں کہ مجھےمستقبل کا علم تھا کہ تیری عقل کم ہے، تو مجھ پر اعتراض کرے گا، تو نے بارہ آنہ مجھ پر قربان کیے،آٹھ آنے کی کھرپی اور چار آنے کی جھولی،یہ اپنا کھرپا اور جھولی لے جس میں گھاس رکھتا تھا، آج کے بعد روزانہ گھاس کاٹ، آج سے چٹنی روٹی بند اور یہ جس پر تو نے اعتراض کیا ہے،اس نے میرے لیے سلطنت چھوڑی ہے، وزیروں کی سلامی چھوڑی ہے، مخمل کے گدے چھوڑے ہیں، شامی کباب و بریانی چھوڑی ہے۔ تو میاں سن لو ؎ اس کے جرے تو کس نہ بسائے یعنی جو اپنے کو جتنا جلاتا ہے خدا بھی اس کو اتنا ہی خوشبودار کرتا ہے۔ راہِ حق کے مجاہدات اور اس کے انعامات جو جتنا مجاہدے سے گزرتا ہے، مخلوق کے طعنے برداشت کرتا ہے اس کا ایمان بھی اتنا ہی اونچا بنتا ہے۔ آج ہرسنت پر مخلوق کا طعنہ ملتا ہے، پاجامہ ٹخنے سے اوپر کرلو، تو کہتے ہیں کہ ارے میاں! آپ کو کیا ہوگیا ہے؟ ٹخنے سے اوپر کرکے آپ نے تو پتلون کی مٹی پلید کردی، پتلون