آداب محبت |
ہم نوٹ : |
|
تاکہ کوئی یہ نہ سمجھے کہ اﷲ اپنے عاشقوں کی حفاظت سے مجبور تھا کہ وہ آگ میں جل رہے تھے اور اﷲ عاجز ہو کر نعوذ باﷲ! حفاظت پر قادر نہ تھا،اس لیے فرمایا کہ میں زبردست طاقت رکھتا ہوں، میں تمہیں دشمنوں کے ستم سے بچا سکتا تھا، لیکن تمہاری وفاداری تاریخ میں روشن نہ ہوتی، تمہاری غلامی، تمہاری بندگی کی شان ظاہر نہ ہوتی کہ میرے عاشق ایسے ہوتے ہیں، اس لیے میں دنیا کو تمہارا مقامِ عشق و محبت دِکھانا چاہتا ہوں، ورنہ میں زبردست طاقت والا ہوں۔ آگے اﷲ تعالیٰ نے اسمائے صفاتیہ میں سے دوسری صفت حمید ذکر فرمائی یعنی میری شانِ حمد اور شانِ محمودیت اور شانِ حُسن کا تقاضا یہ تھا کہ تمہاری گردنیں کٹیں اور خون بہے اور میں تاریخِ عالمِ دنیا اور عالمِ آخرت دونوں جہاں میں تمہاری محبت کا جھنڈا لہرادوں کہ ایسے ہوتے ہیں میرے عاشق۔ تو میں زبردست طاقت والا اور زبردست قابلِ حمد ہوں یعنی دنیا میں اور کوئی حمد کے قابل نہیں ہے سوائے اﷲ کے، کیوں کہ اگر آج کسی کے حسن کی تعریف کرتے ہو تو کل اس کا زوالِ حسن دیکھ کر بھاگتے ہو یعنی جوانی میں جس آنکھ اور گال اور بال پر عاشق ہوئے تھے، جب ستر سال کی عمر میں وہ بڑھیا ہو کر آئی تب اسے دیکھ کر کہتے ہو ؎ بگڑا ہوا جغرافیہ دیکھا نہیں جاتا دیکھا نہیں جاتا ہے مگر دیکھ رہا ہوں لیکن اﷲ تعالیٰ فرماتے ہیں: میرا جغرافیہ نہیں بدلتا کُلَّ یَوۡمٍ ہُوَ فِیۡ شَاۡنٍ 19؎ ہر وقت میری نئی نئی شانیں ظاہر ہوتی رہتی ہیں۔یہ ہے مخلوق اور خدا میں فرق ؎ میں اُن کے سوا کس پہ فدا ہوں یہ بتا دے لا مجھ کو دِکھا ان کی طرح کوئی اگر ہے تو یہاں حمید نازل فرماکر بتادیا کہ اپنی عظمتِ شان کی وجہ سے صرف میں ہی قابلِ حمد ہوں اور میرے عاشقوں نے اپنا خون بہا کر میری حمد کی ہے۔ تو میں عرض کررہا تھا کہ مولانا مسیح اﷲ خان صاحب کی زبان میں ایسا اثر تھا کہ ان کی تقریر سننے اتنا بڑا مجمع آیا تھا کہ میں نے لاہور میں اتنا بڑا مجمع کبھی نہیں دیکھا تھا۔ تو _____________________________________________ 19؎الرحمٰن: 29