آداب محبت |
ہم نوٹ : |
|
حلوہ کھلائے اور گلے سے لگائے تو بس وہ پیر ہے،حالاں کہ اصلی پیر تو وہ ہوتا ہے جو دل سے غفلت کی پیرا(مرض) نکال دے۔ شیخ کی شفقت و محبت کی مثال چناں چہ شیخ الہند اپنے پیر و مرشد کے حکم سے واپس آگئے۔ اب ذرا اِن پیر و مرید کے تعلق کا دوسرا رُخ بھی سن لیجیے۔ شیخ الہند کی حضرت گنگوہی کی خدمت میں ہر ہفتے حاضری ہوتی تھی، ایک دفعہ زیادہ دن کے بعد حاضری ہوئی تو حضرت گنگوہی کی خدمت میں ایک صاحب آئے ہوئے تھے، شیخ الہند رحمۃ اﷲ علیہ نے دیکھا کہ نواب صاحب کے لیے کھانا آیا ہے تو پیچھے ہٹنے لگے، حضرت گنگوہی کی بینائی جاتی رہی تھی، اندازے سےسمجھ لیا کہ شیخ الہند کھسک رہے ہیں۔ پوچھا کہ محمود الحسن کہاں جارہے ہو؟ کہنے لگے کہ حضرت! نواب صاحب آپ کے ساتھ کھانا کھائیں گے اور نواب صاحب حضرت سے تو عقیدت لے کر آئے ہیں، لیکن ہوسکتا ہے مجھ جیسے طالبِ علم کے ساتھ کھانے میں ان کو تکلف ہو اور شرم آئے۔ تو حضرت گنگوہی نے فرمایاکہ یہاں آؤ اور میرے ساتھ کھانا کھاؤ، اگر نواب صاحب کو ناگواری ہوگی تو ان کو اس کمرے میں کھانا بھجوادوں گا جہاں وہ ٹھہرے ہوئے ہیں، لیکن تم میرے ساتھ کھانا کھاؤ گے۔ تیرا میرا جینا مرناایک ساتھ ہے۔ دیکھیے یہ ہے ان کی محبت کا دوسرا رُخ۔ بعض وقت پیر نے ایک مرید کو پانچ روپیہ ہدیہ دیا اور دوسرے مرید کو سو روپیہ دیا، پھر دنیا دار مرید کے نفس کی قلابازیاں دیکھیے کہ اس کا نفس کتنی گالیاں دیتا ہے، لیکن یہ نہیں دیکھتا کہ کس مرید نے شیخ کے کتنے ناز اٹھائے ہیں اور اﷲ کی راہ میں کتنی قربانی دی ہے۔ جتنی جس کی قربانی اتنی خدا کی مہربانی۔ مہربانی بقدرِ قربانی سلطان ابراہیم بن ادہم رحمۃ اﷲ علیہ نے جب خدا کی محبت میں آدھی رات کو سلطنتِ بلخ چھوڑ کر گدڑی پہنی اور نیشاپور کے جنگل میں عبادت کرنے گئے، تو ان کے لیے آسمان سے کھاناآیا اورسارا جنگل خوشبو سے معطر ہوگیا۔ وہیں ایک فقیر کو دس سال سے خدائے تعالیٰ کی طرف سے چٹنی روٹی مل رہی تھی، اس نے اﷲ تعالیٰ سے مانگا تھا کہ اے اﷲ! میں گھاس