آداب محبت |
ہم نوٹ : |
|
اس سے زیادہ حرام ہے،کیوں کہ شرابی اپنے کو حقیر سمجھتا ہے، اس کوکبھی شراب سے توبہ نصیب ہوسکتی ہے، لیکن تکبر والا مریض جب تک اہل اﷲ کی صحبت نہیں پاتا، اسے اپنے مرض کا بھی پتا نہیں چلتا، وہ اپنے ہر قدم کو بالکل صحیح سمجھتا ہے۔ جتنا بھی ظلم کرے وہ سمجھتا ہے کہ سب صحیح ہے، جھوٹ بولو وہ بھی صحیح ، کسی کی پٹائی کردو وہ بھی صحیح، کسی کے مال پر قبضہ کر لو سب جائز، لہٰذا تکبر کا نشہ شراب کے نشے سے زیادہ خطرناک ہے۔ انسانوں کو شیطان کے دو سبق پھر مولانا مسیح اﷲ خان صاحب نے بڑی عمدہ بات فرمائی کہ شیطان نے دو سبق دے دیے۔ شیطان مردود تو ہوا، لیکن قیامت تک کے انسانوں کو دو سبق دے گیا اور یہ سبق بھی قصداً نہیں دیے، ورنہ جو خود سراپا شر ہو اس سے خیر کی توقع کہاں! مگر اﷲ تعالیٰ نے چاہا کہ تکوینی طور پر اس کا شر انسانوں کے لیے خیر بن جائے۔ جیسے کوئی آدمی سنکھیا کھاکر مرجائے، تو دوسروں کو سبق مل جاتا ہے کہ بھئی ہم سنکھیا نہ کھائیں گے، حالاں کہ کھایا اس نے، مرا وہ، لیکن جب وہ سنکھیا سے مرگیا، تو سبق ملا کہ سنکھیا کھانا اچھا نہیں ہے، بُرا ہے۔ اسی طرح شیطان خود تو مردود ہوا لیکن اس سے انسانوں کو دو سبق مل گئے: ایک تو عبادت کرنے والوں کو سبق ملا کہ شیطان بزبانِ حال کہہ رہا ہے کہ دیکھو عبادت کا نشہ اگر تمہیں آگیا، تو مجھ سے زیادہ عبادت تمہاری نہیں ہوسکتی، شیطان نے لاکھوں سال عبادت کی ہے، ہزاروں سال تو آپ سنتے ہی رہتے ہیں ؎ ہزاروں سال گر سجدے میں سر مارا تو کیا مارا لیکن لاکھوں کا لفظ مولانا کے منہ سے نکلا ہے کہ اے عبادت کرنے والو! اشراق، اوّابین اور تہجد پڑھ کر اور زیادہ تسبیح پڑھ کر اپنے کو بڑا نہ سمجھ لینا، میں نے بڑی عبادت کی تھی، لیکن تکبر کے نشے سے مردود ہوا ہوں، اسی لیے اﷲ تعالیٰ نے سب کو سکھادیا کہ پڑھو اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ پناہ مانگتاہوں میں اﷲ کی شیطان مردود سے۔ تو شیطان کا مردود ہونا ایک سبق تو عابدوں اور صوفیوں کو دے گیا، جو بڑی ضربیں لگاتے ہیں کہ اے عابدو! میں نے بڑی عبادت کی ہے،لیکن مجھے مربّی ومزکّی اور شیخ نہیں ملا، اس لیے میں مردود ہوچکا ہوں اور اے مولویو! تمہارے علم سے میرا علم زیادہ تھا، لیکن میرے سر پر مربی نہیں تھا، اس لیے میں مردود ہوگیا