آداب محبت |
ہم نوٹ : |
|
اس شعر کی اردو سمجھ لیتے، کیوں کہ اس شہر میں ’’بابا تم کدھر جائے گا‘‘ والی اردو ہے اس لیے ڈر بھی لگتا ہے، مگر کوشش کریں گے تو سمجھ لیں گے۔ شاعر اصغر گونڈوی جگر کا استاد کہتا ہے کہ ؎ لذتِ دردِ خستگی دولتِ دامنِ تہی توڑ کے سارے حوصلے مجھ کو یہ اب صلہ دیا لذتِ دردِخستگی یعنی بھنا ہوا دل، خدا کے عشق سے جلا ہوا دل، اس کو دردِ دل اور دردِ خستگی کہتے ہیں،یہ اﷲ والوں کی دولت ہے۔ اﷲ تعالیٰ اپنے عاشقوں کی تمام خواہشات کو توڑدیتے ہیں پھر جب دل ٹوٹ جاتا ہے، تو اس ٹوٹے ہوئے دل میں جلوہ فرماہوتے ہیں۔ حدیث ہے: اَنَا عِنْدَ الْمُنْکَسِرَۃِ قُلُوْبُھُمْ 9؎ملّا علی قاری رحمۃ اللہ علیہ نے اس حدیث کی توثیق کی ہے، اس کو موضوعات میں شامل نہیں کیا کہ جس کا دل اور آرزو ٹوٹ جائے اور حسرت بھری آہ نکل جائے کہ کوئی آرزو پوری نہیں ہوئی، اب ہائے ہائے کررہا ہے، اسی ٹوٹے ہوئے دل میں اﷲ آتا ہے۔ اﷲ تعالیٰ نے ٹوٹے ہوئے دل کا انتظام کیا ہے، جبھی ہمارے اندر ایسے تقاضے رکھے ہیں۔ اگر مجاہدہ شدیدہے تو انعام بھی تو بہت بڑا ہے، ایسا انعام ہے کہ جس دن اﷲ مل گیا تمام مملکت وسلطنت سب بھول جاؤ گے، سورج اور چاند کی روشنی کو بھول جاؤ گے۔ جو سورج اور چاند کو روشنی کی بھیک دیتا ہے، تو جس کے دل میں وہ خود آجائے تو اس دل کے عالم کا کیاعالم ہوگا؟ خواجہ صاحب نے کیا پیارا شعر فرمایا ؎ یہ کون آیا کہ دھیمی پڑ گئی لو شمعِ محفل کی پتنگوں کے عوض اُڑنے لگیں چنگاریاں دل کی یہ کون ذات مرے دل میں آگئی؟ آج اﷲ دل میں آیا ہے تو سارا عالَم بے نور معلوم ہورہاہے، سورج اور چاند کی روشنی پھیکی معلوم ہورہی ہے۔ ذکر اﷲ سے روحانی ترقی کی مثال اس لیے کہتا ہوں کہ دفتروں سے چھٹی پاکر، اپنی دوکانوں سے چھٹی پاکر، کاروبار کی _____________________________________________ 9؎التشرف بمعرفۃ احادیث التصوف:163،مطبوعۃ المکتبۃ المظہریۃ،کراتشی