آداب محبت |
ہم نوٹ : |
|
میرے ایک دوست تھے جو بڑے رئیس تھے، میرے پیر بھائی بھی تھے، کہنے لگے کہ ایک غریب کو میں نے تین دفعہ دس دس ہزار روپے دیے کہ کوئی دوکان کھول لے۔ پہلے زمانے کا دس ہزارآج کے پچاس ہزار کے برابر تھا۔ تو انہوں نے کہا کہ تم مجھ سے بار بار مدد مانگتے ہو اور مجھے پریشان کرتے ہو، اس سے اچھا ہے کہ یہ لو دس ہزار روپے اور دوکان کھول لو، تاکہ میں تمہاری مدد سے چھٹی پاجاؤں۔ چند مہینوں کے بعد اس نے کہا کہ صاحب وہ رقم تو ڈوب گئی، برکت ہی نہیں ہوئی، تجارت فیل ہوگئی۔ پھر دس ہزار دیے کہ شاید اب سنبھل جائے۔ غرض تین دفعہ دس دس ہزار روپے دیے، جب تینوں دفعہ اس نے کہا کہ تجارت ڈوب گئی، خسارہ ہوگیا، تب انہوں نے مجھ سے کہا کہ خدا جس کے لیے رزق کی برکت کا فیصلہ نہ کرے اور دنیا بھر چاہے کہ وہ بابرکت روزی کا مالک ہوجائے اور اس کی روزی میں وسعت و کشادگی ہوجائے، تو یہ بندوں کے اختیار میں نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے سب اپنے اختیار میں رکھا ہے۔ ایک مرتبہ ڈھاکہ سے ایک خط آیا کہ ایک سانپ نکلا اور چاروں طرف پکی زمین، پکی دیوار تھی، پھر وہ اچانک غائب ہوگیا، کوئی سوراخ بھی نہیں ملا جس میں وہ گھس جاتا، اس کے بعد سے میری دوکان میں برکت نہیں رہی، جو روپیہ پیسہ کماتا ہوں توحساب کے رجسٹر میں تو برکت معلوم ہوتی ہے، لیکن جب گنتا ہوں تو کچھ برکت معلوم نہیں ہوتی۔ میں نے ان کو خط میں لکھا کہ میں نے تو قرآنِ پاک میں یہ پڑھا ہے: اَللہُ یَبۡسُطُ الرِّزۡقَ لِمَنۡ یَّشَآءُ وَ یَقۡدِرُ 3 ؎اللہ جس کی روزی چاہتے ہیں بڑھا دیتے ہیں اور جس کی چاہتے ہیں کم کردیتے ہیں، لیکن آپ کے اس خط سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ نے روزی کےگھٹانے بڑھانے کا اختیار سانپوں کے حوالے کردیا۔ بس انہوں نے روتے ہوئے پھر خط لکھاکہ معافی چاہتا ہوں، آپ نے عقیدہ صحیح کردیا۔ سنت اور بدعت کی مثال تو اصل تو عقیدے کی اصلاح ہے،ورنہ عمل میں جان نہیں آئے گی جیسے ایک کے دائیں طرف صفر رکھو تو دس بنتا ہے، ایک صفر اور بڑھایا تو سوبنتا ہے، لیکن اگر ایک نہ ہو اور صفر _____________________________________________ 3 ؎الرعد :26