آداب محبت |
ہم نوٹ : |
|
دیتے ہیں تو اس میں دار العلوم وغیرہ سب داخل ہیں، جہاں قرآن کے معانی، تفاسیر، شروحاتِ حدیث وغیرہ کا علم حاصل ہوتا ہے۔ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اﷲ علیہ نے چودہ جلدوں میں بخاری کی شرح لکھی ہے۔ تصوف ہر کتاب میں موجود ہے، مگر تصوف میں چوں کہ پابندی ہے اور عمل کرنا پڑتا ہے، اس لیے اہلِ علم گھبراتے ہیں، ورنہ ان کے پاس کوئی دلیل اس سے جان چھڑانے کی نہیں ہے۔ تصوف کے تمام مسائل قرآن و حدیث اور تفسیر میں موجود ہیں۔ شعبۂ تزکیۂ نفس کی اہمیت تو نبوت کے مقاصد میں سے قرآن کے مدرسے ہوگئے، تعلیمِ کتاب یعنی علومِ دینیہ کے لیے دارالعلوم ہیں، مگر یُزَکِّیۡہِمۡ کا مدرسہ کہاں ہے؟ یہ خانقاہیں تزکیۂ نفس کے لیے ہیں، پہلے یہ تینوں ساتھ تھے، لیکن اب فردِ واحد سے اتنا کام نہیں ہوسکتا کہ وہ تجوید بھی پڑھائے، حفظ بھی کرائے، قرآن کی تفسیر و احادیث بھی پڑھائے، فتوے بھی دے اور لوگوں کی اصلاح کا کام بھی کرے، کیوں کہ آج کل انسان کے قویٰ ضعیف ہوگئے ہیں۔ اور شعبۂ تزکیۂ نفس کا کام کیا ہے؟ کسی اﷲ والے سے اپنے نفس کی اصلاح کرانا۔ یہی چیز تھی جس کے لیے مولانا خلیل احمد سہارنپوری رحمۃ اﷲ علیہ نے مولانا گنگوہی رحمۃ اﷲ علیہ سے کسبِ فیض کیا اور یہی چیز تھی جس کے لیے تبلیغی اسفار کے بعدحضرت مولانا الیاس صاحب رحمۃ اﷲ علیہ اپنے اکابر کی خدمت میں حاضر ہوتے تھے۔ جیسے سو میل کا ر چلے تو گرد و غبار صاف کرانے کے لیے گیرج میں ٹیوننگ کرانا ضروری ہوجاتا ہے، اسی طرح لوگوں سے میل جول سے نفس پر بھی گرد وغبار لگ جاتا ہے، نفس میں کچھ بڑائی آجاتی ہے کہ میں نے دین کے لیےیہ کیا اور اتنے آدمی میرے ہاتھ پہ مسلمان ہوئے، مجھ سے اتنا کام ہوا، اس لیے اﷲ والے سکھاتے ہیں کہ نیکی کر کنویں میں ڈال یعنی نیکی پر نظر نہ ہو، نظر صرف اﷲتعالیٰ کی رحمت پر ہو، اس کے لیے نفس کو مٹانا ضروری ہے، یہ خود سے نہیں مٹتا جب تک کہ کوئی مٹانے والا نہ ہو۔ علم اور عبادت یہ دو چیز یں نفس کو اور بڑھا دیتی ہیں۔ مولانا مسیح اﷲ خاں صاحب نے یہی بتایا کہ علم اور عبادت کے نشے سے نفس نہیں مٹتا بلکہ نفس اور پھولتا ہے، یہ صرف شیخ کی